پشاور۔لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ سال 2024 میں خفیہ اطلاعات پر کے پی میں 14ہزار 535 آپریشنز کیے گئے اور 2025 میں اب تک 10ہزار 115 کارروائیاں کی گئیں، رواں سال مارے جانے والے خارجیوں کی تعداد گزشتہ 10 سال میں سب سے زیادہ ہے۔
ڈی جی آئی سی پی آر نے کہا کہ نظرثانی شدہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہیں ہوا، دشہت گردی کے معاملے پر سیاست بھی ایک وجہ ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ خیبر پختونخوا کی عدالتوں سے دہشت گردوں کو سزا کیوں نہیں ملیں؟ کیا آج ہم ایک بیانیے پر کھڑے ہیں؟
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ بھارت افغانستان کو دہشتگردی کے بیس کیمپ کے طور پر استعمال کر رہا ہے جبکہ دوحہ معاہدے میں طے کیا گیا تھا کہ افغانستان کی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہوگی۔
ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم نے اپنی سیاست کو دہشت گردی پر مقدم کر دیا ہے اس لیے گزشتہ کئی سال سے خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، صوبے کی گورنس سے متعلق کوئی بات نہیں کی جاتی۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ کیا فوج کے جوان اپنے سینوں پر اس لیے گولیاں کھا رہے ہیں کہ انکی سیاست چلتی رہے؟ یہ سوچنے کی بات ہے کہ ایسا کب تک چلتا رہے گا، آج یہ بیانیہ کہاں سے آگیا کہ افغان مہاجرین کو واپس نہیں بھیجنا؟
انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں اور انکے سہولت کاروں کے لیے زمین تنگ کر دی جائے گی، جو خارجیوں کی سہولت کاری کرے گا وہ انجام کو پہنچے گا لہٰذا خارجیوں کے ناسور کو انجام تک پہنچانے کے لیے عوام ساتھ دے۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ بنیادی طور پر پولیس کا کرنے والا کام بھی فوج کو کرنا پڑا رہا ہے، جس کی وجہ یہ ہے سی ٹی ڈی کی تعداد ہی 3200 رکھی ہوئی ہے تو پھر نتائج کیسے برآمد ہوں گے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کا سب سیاسی اور مجرمانہ گٹھ جوڑ ہے، اس سیاسی مافیا کے لیے ہزاروں نان کسٹم پیڈ گاڑیاں اہم ہیں اور اگر اسمگلنگ ہوتی رہے گی تو اس کے ساتھ دہشت گردی اور دھماکا خیز مواد بھی آئے گا، یہاں ہونے والی اسمگلنگ کا الزام بھی فوج پر لگا دیا جاتا ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ سعودی عرب سمیت دیگر ممالک نے افغانستان کو سمجھانے کی کوشش کی، افغستان میں ہر دہشت گرد گروہ کی کوئی نہ کوئی شاخ موجود ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاکستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کی وجہ ایک گمراہ کن بیانیہ ہے، امید ہے کے پی کے عوام کی حفاظت کے لیے افغانستان سے سیکیورٹی کی بھیک مانگنے کے بجائے صوبے کے ذمہ داران خود حفاظت کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے معاملے پر سیاست کی گئی اور معاملے کو الجھایا گیا جبکہ دہشت گردی کے 70 فیصد واقعات کے پی میں ہوئے، لوگوں کو الجھایا جا رہا ہے کہ دہشت گردی کا حل آپریشن نہیں ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ آج سے 2سال، 3 سال، 5 یا 6 سال قبل دیکھیں وہ کون شخص یا سیاسی بیانیہ ہے جو کہتا ہے دہشت گردوں سے بات چیت کرنی چاہیے، اس وقت وہ ریاست کے ذمہ دار تھے اور آج وہ ریاست کے ذمہ دار ن ہیں ہیں لیکن آج یہی کہہ رہے ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا ہے کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید پر لگے الزامات سے متعلق انصاف کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں گے۔
پشاور میں پریس کانفرنس کے دوران سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید سے متعلق صحافی کے سوال پر ترجمان پاک فوج نے واضح کیا کہ پاک فوج میں خود احتسابی کا عمل بہت مربوط اور اچھا ہے لیکن فوج میں خود احتسابی کا عمل محض الزامات پر کام نہیں کرتا، الزمات ثابت ہو جائیں پھر سزا دی جاتی ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا تھا کہ جس کا ٹرائل ہو رہا ہے وہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی ہیں اور یہ انتہائی اہم نوعیت کا معاملہ ہے جس کا ایک قانونی طریقہ کار ہے، سب کو اندازہ ہونا چاہیے اس معاملے میں انصاف کے تمام تقاضے پورے ہوں گے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل میں تاخیر کی پروا نہیں، انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے اور افواج پاکستان میں دفاع کے لیے تمام حقوق حاصل ہوتے ہیں۔
ترجمان نے واضح کیا کہ آپ ہمیں سیاست میں نہ لائیں، ہمارے لیے سیاستدان قابل احترام ہیں لیکن آپ کی سیاست ریاست سے اوپر نہیں ہے، اپنی فوج کو گھٹیا بیان بازی اور گمراہ کن پروپیگنڈے سے دور رکھیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ بیانیہ بنانے والی پارٹی کے پاس تو مائیک موجود ہے، جب چاہا بیان دے دیا لیکن پاک فوج کا ترجمان روزانہ بیٹھ کر کسی کو جواب نہیں دے سکتا اور یقیناً آپ بھی ایسا نہیں چاہیں گے۔
پریس کانفرنس کے آغاز پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے خیبر پختونخوا میں شہید ہونے والوں کو سلام پیش کیا اور کہا کہ خیبر پختونخوا کے عوام دہشتگردی کا بہادری سے مقابلہ کر رہے ہیں











