بیجنگ۔گزشتہ دو دہائیوں سے امریکہ کی یہ حکمت عملی رہی ہے کہ بھارت کو چین کا متبادل صنعتی و تجارتی مرکز بنایا جائے، اور اسی پالیسی کے تحت امریکی کمپنیاں چین سے منتقل ہو کر بھارت میں سرمایہ کاری کر رہی تھیں۔
تاہم اب ایک غیر متوقع موڑ آ گیا ہے، جس کے نتیجے میں دونوں ایشیائی ہمسایہ طاقتوں کے درمیان شدید ٹیکنالوجی کی جنگ چھڑ چکی ہے۔ ابتدائی مرحلے میں چین نے بھارت کو نایاب ارضی دھاتوں کی ترسیل کم کر دی ہے، جو چِپ، کمپیوٹر، موبائل فون، سولر پینل، اور ونڈ ٹربائن جیسی جدید مصنوعات کی تیاری کے لیے بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔
دنیا کی تقریباً 70 فیصد نایاب دھاتیں چین میں تیار ہوتی ہیں۔ ان دھاتوں کی قلت کے باعث بھارت میں موبائل اور الیکٹرانکس مصنوعات بنانے والی فیکٹریاں شدید بحران کا شکار ہو رہی ہیں۔ اسی کے ساتھ چین نے معروف تائیوانی کمپنی فاکسکون کی بھارت میں قائم فیکٹریوں سے تمام چینی ماہرینِ سائنس و ٹیکنالوجی کو واپس بلا لیا ہے۔
اس کے علاوہ، چینی حکومت نے بھارتی کمپنیوں کے ساتھ ٹیکنالوجی کی منتقلی پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے۔ یہ وہی فیکٹریاں ہیں جہاں امریکی کمپنی ایپل کے آئی فون تیار کیے جا رہے تھے۔ نریندر مودی کی حکومت بھارت کو جدید ٹیکنالوجی کا عالمی مرکز بنانے کے خواب دیکھ رہی تھی، مگر چین کے ان جارحانہ اور انقلابی اقدامات نے ان تمام منصوبوں کو شدید دھچکہ پہنچایا ہے اور بھارت کی ٹیکنالوجیکل ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ کھڑی کر دی ہے۔











