تحریر: محمد زیب
کمرے کی خاموشی میں گونجتا سناٹا… بند دروازے کے پیچھے پڑی وہ لاش جو اکیس دن سے انتظار کر رہی تھی کہ شاید کوئی آئے… شاید کوئی پوچھے… مگر کوئی نہ آیا۔ یہ صرف ایک لاش نہیں، ہماری اجتماعی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت تھی۔
جدیدیت کے نام پر سماجی موت
فیمینزم کے شور میں ہم نے اپنی لڑکیوں کو یہ نہیں بتایا کہ:
– “آزادی” کے نام پر رشتوں سے منہ موڑنا دراصل خودکشی کے مترادف ہے
– “خودمختاری” کے نعرے درحقیقت تنہائی کے سفر کا پہلا قدم ہیں
– “میرا جسم، میری مرضی” کا نعرہ لگانے والے ہاتھ آخرکار اسی جسم کو دفنانے سے انکار کر دیں گے
خاندان: فطرت کا بنایا ہوا محفوظ ترین قلعہ
اسلام نے عورت کو جو تحفظ دیا وہ کسی “ازم” میں نہیں مل سکتا:
– باپ کی ڈانٹ میں چھپی ہوئی وہ فکر جو راتوں کی نیند حرام کر دیتی ہے
– بھائی کی غیرت کی وہ چادر جو ہر طرح کے طوفانوں سے بچاتی ہے
– شوہر کی محبت کی وہ چھاؤں جو زندگی بھر ساتھ نبھاتی ہے
سوشل میڈیا: جذبات کا تجارتی مرکز
آج کے دور کا المیہ:
– ہزاروں فالوورز مگر مرتے وقت کوئی ہاتھ تھامنے والا نہیں
– لاکھوں لائیکس مگر آنسوؤں کا ایک قطرہ تک نہیں
– وائرل ہو جانے والی پوسٹس مگر حقیقی زندگی میں کوئی تعزیت کرنے والا نہیں
انسانی رشتوں کی اہمیت
کاش ہم سمجھ پاتے کہ:
– باپ کی ناراضی دراصل بے پناہ محبت کا اظہار ہے
– بھائی کی سختی دراصل بہن کی حفاظت کا عہد ہے
– شوہر کی تنقید دراصل گھر کو سنبھالنے کی تربیت ہے
ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ
یہ واقعہ ہم سب کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے:
– کیا ہم اپنی نسل کو جدیدیت کے نام پر تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں؟
– کیا ہم اپنی لڑکیوں کو غلط راستے پر چلنے کی ترغیب دے رہے ہیں؟
– کیا ہم خود اپنے ہاتھوں سے اپنے خاندانوں کو تباہ کر رہے ہیں؟
آئیے آج عہد کریں کہ:
1. اپنی بہنوں کو حقیقی آزادی کا تصور سکھائیں گے
2. اپنی بیٹیوں کو رشتوں کی اہمیت بتائیں گے
3. اپنی بیویوں کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں زندگی گزارنے کی تلقین کریں گے
ورنہ یاد رکھیں…
جو قوم اپنے خاندانی نظام کو ترک کر دیتی ہے، تاریخ اسے کبھی معاف نہیں کرتی۔











