میڈیا کو درپیش چیلنجز

پینڈوز اینڈ ڈاگز آر ناٹ الاوڈ ، مصطفےٰ صفدر بیگ کا کالم

پینڈوز اینڈ ڈاگز آر ناٹ الاوڈ ، مصطفےٰ صفدر بیگ کا کالم
کہنے کو یہ صرف ایک جھلک، ایک لمحہ اور ایک منظر ہے، مگر اس کے پیچھے نہ جانے کتنے سوال، کتنے درد اور کتنی تہذیبی تھکن چھپی بیٹھی تھی، کون جانتا ہے؟
کراچی کے ایک معروف ریستوران میں شلوار قمیض پہنے ایک شہری کو محض اس وجہ سے دروازے پر روک لیا گیا کہ اس کا لباس “ڈریس کوڈ” سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ یہ سن کر بدن میں جیسے سنّاٹا سا اُتر گیا۔ یوں لگا جیسے کسی نے ایک نہیں، ہزاروں چراغ ایک ساتھ گل کردیے ہوں۔
شلوار قمیض! وہی لباس جس کے دامن میں ہماری تہذیب کی پونچھیاں چھپی ہیں، جس کی شکنوں میں ہماری ماؤں کی دعائیں، بہنوں کی حیا اور بزرگوں کی دانش سانس لیتی ہے۔ جس پر خراش آتی ہے تو لگتا ہے جیسے پورا تمدن زخم کھا گیا ہو۔
یہ لباس محض چند گز کپڑا نہیں ہوتا بلکہ یہ تو تاریخ کی اوڑھنی، ورثے کی ردا اور خودی کا پرچم ہوتا ہے۔ یہ لباس کبھی دریائے سندھ کی موجوں کی ٹھنڈک تھا، کبھی بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں غیرت کی علامت، کبھی پختون خواہ کی گلیوں میں بے نیازی کی ادا اور کبھی پنجاب کی دھرتی میں سفید پوشی کا آئینہ تھا۔
یہ وہی لباس ہے جسے اوڑھ کر ہم نے مٹی کی عدالتوں میں سر اٹھا کر حاضری دی۔ وہی لباس جو جناح کی جسامت پر جچتا تھا، جو اقبال کی خودی میں جھلکتا تھا، جو فیض کی نظموں میں اِتراتا تھا اور جو بھٹو کے وعدوں میں بولتا تھا۔ یہی تو ہے ہمارا جُبّہ و دستار، یہی تو ہے ہماری شناخت۔
اور اِس شناخت کو ہی، ہمارے ہی شہر میں، ہمارے ہی ریستوران میں اور ہمارے ہی کسی خود ساختہ “مہذب” نے دروازے پر کھڑے ہو کر ٹھکرا دیا؟
کیوں؟ اس لیے کہ وہ لباس مغربی جمالیات کے سانچے میں نہیں ڈھلتا؟ اس لیے کہ وہ نیوی بلیو یا چارکول گرے کے سُوٹ کی جھلک نہیں دیتا؟ اس لیے کہ اُس میں نہ کوئی قیمتی ٹائی ہے نہ آستین میں سنہری کف لنکس؟
یہ واقعہ صرف ایک شخص کی بے عزتی کا معاملہ نہیں۔ یہ تہذیبوں کے تصادم کا ایک تازہ باب ہے۔ یہ ایک پوری قوم کو آئینہ دکھانے کی کوشش ہے کہ دیکھو! تم ابھی تک “مہذب” نہیں ہوسکے، تمہارا لباس ابھی تک قابلِ قبول نہیں، تم ابھی بھی ثقافتی امتیاز کی اس سیڑھی پر کھڑے ہو جہاں تمہاری شناخت تمہارے خلاف گواہی دیتی ہے۔
یادوں کے دریچوں سے اچانک وہ سیاہ بورڈ جھانکنے لگتے ہیں، جن پر لکھا ہوتا تھا
“No Dogs or Indians Allowed”
کبھی یہ تختیاں پارکوں کے دروازوں پر لگائی جاتی تھیں، کبھی کلبوں کی پیشانیوں پر اور آج شاید یہ تختی دلوں پر ٹانگ دی گئی ہے۔
وہی ذہنیت، وہی غرور اور وہی تعصب ہے، مگر اب یہ نئے چہرے، نئے الفاظ اور نئے طریقوں سے سامنے آتا ہے۔ اب یہ امتیاز شلوار قمیض کے خلاف ہے، اب یہ نفرت اپنی ہی ثقافت سے ہے۔
یہاں ستم کا نشانہ کوئی اور نہیں، خود ہم ہیں۔ ہم جنہوں نے انگریز کو نکال باہر کیا، ہم جنہوں نے اپنی ریاست بنائی، ہم جنہوں نے اپنی زبان، اپنی ثقافت اور اپنے لباس پر فخر کرنا سیکھا۔ اب ہم ہی اپنی شناخت سے شرمندہ پھرتے ہیں؟
کہاں سے آئی یہ ذہنی غلامی؟
کس نے ہمارے اذہان میں یہ زہر گھولا کہ اپنی مٹی کی خوشبو بدبو محسوس ہونے لگی؟
یہ کس نے سکھایا کہ شلوار قمیض “کیژوئل” ہے اور مغربی سوٹ “فارمل”؟
ہم نے کب یہ طے کیا کہ قومی لباس اب صرف تہواروں اور جنازوں کے لیے رہ گیا ہے اور روزمرہ کے “معاشرتی معیارات” پر مغربی سانچے ہی فٹ بیٹھتے ہیں؟
یہ صرف لباس کا مسئلہ نہیں۔
یہ وہ چھوٹا سا دروازہ ہے، جس سے گزر کر ہم اپنی تہذیب کی لاش کو باہر پھینکنے والے ہیں۔
آج شلوار قمیض ریستوران کے دروازے پر رک گئی، کل یہ ہمارے دل کے دروازے پر بھی رُک جائے گی۔
پھر ہماری شاعری میں جو استعارے ہیں، وہ بھی پرانے لگنے لگیں گے اور شاید ہماری بولی کے محاورے بھی “ویلیو ایڈیڈ” نہیں رہیں گے۔
اور پھر ہم خود بھی شاید کسی داخلی دروازے پر رُک جائیں گے، جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہ ہوگا۔
دنیا کی تاریخ ایسی ہی بے شمار کڑوی حقیقتوں سے بھری پڑی ہے۔
چین کی گلیوں میں “چینیوں اور کتوں کا داخلہ ممنوع ہے” کے بورڈ، جنوبی افریقہ کے اپارتھائیڈ قوانین اور امریکہ کی بسوں میں سیاہ فاموں کے لیے مخصوص نشستیں۔
کیا یہ سب صرف تاریخ تھے؟ نہیں، یہ وہ آئینے ہیں جو آج بھی ہمیں منہ چڑا رہے ہیں۔
اور ہم؟
ہم وہ بد نصیب قافلہ ہیں جو اپنی ہی تہذیب کے سنگ میل مٹا کر مغرب کی جانب دوڑنے کی کوشش کر رہا ہے، بغیر یہ سوچے کہ جس تہذیب کے پیچھے ہم بھاگ رہے ہیں، وہ خود اپنی بنیادوں کو کھوج رہی ہے۔
ہماری شلوار قمیض صرف لباس نہیں، یہ ہماری اجتماعی یادداشت کی علمبردار ہے۔ یہ وہ پرچم ہے جو ہمارے دیہات کی محرومی، شہروں کی سادگی اور قوم کے اتحاد کو جوڑتا ہے۔ اسے کمتر سمجھنا، دراصل خود کو کمتر ثابت کرنے کے مترادف ہے۔
ریستوران والے نے محض ایک شخص کو روکا مگر ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ ہم خود کو کہاں لے جا رہے ہیں؟ کیا ہم مغرب زدگی کے اس نشے میں اپنی اصل بھول بیٹھے ہیں؟ کیا ہم اس احساسِ کمتری کے شکار ہوچکے ہیں کہ جو کچھ مقامی ہے، وہ کمتر ہے اور جو کچھ غیر ہے، وہی معتبر ہے؟
یہ صرف کراچی کے ایک ریستوران کی بات نہیں۔ یہ تو ہماری تاریخ، تہذیب اور شعور کی سانس لیتی ہوئی ہچکی ہے۔ ایک ایسی صدا جو ہمیں ماضی کے آئینے میں ہمارا مستقبل دکھاتی ہے۔
کبھی دھندلا، کبھی بے چہرہ اور کبھی دل گرفتہ۔
اسی آئینے کے اندر جب ہم امریکہ کی سیاہ تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں تو ایک اذیت ناک باب کھلتا ہے۔ “جِم کرو قوانین” جو ایک ایسا شرمناک عدالتی جال تھا جس نے انسانی عظمت کو رنگ کی بنیاد پر ٹکڑوں میں بانٹ دیا۔ علیحدہ اسکول، الگ پانی کے فوارے، جدا ریستوران، ہوٹل اور حتیٰ کہ بسوں میں نشستوں کا بھی امتیاز اور وہ بھی اس بنیاد پر کہ جن کیلئے یہ قوانین بنائے گئے تھے، ان کی جلد کا رنگ گورا نہیں بلکہ سیاہ تھا۔
امریکہ میں ساٹھ کی دہائی کا وہ سورج بھی یاد آتا ہے جس کی کرنیں آزادی کا وعدہ لے کر پھوٹیں مگر زمین پر ان سورج زادوں کو “صرف گوروں کے لیے” مخصوص نشستوں پر بیٹھنے کی اجازت نہ ملی۔ کبھی انہیں دروازے سے واپس لوٹا دیا گیا، کبھی پولیس کی لاٹھیاں ان کے وقار کی ہڈیوں پر برسیں اور کبھی جیل کی کال کوٹھڑیوں میں اُن کی سانسوں سے مساوات کا حق چھینا گیا۔ گرفتاریاں ہوئیں، جلوس نکلے، خون بہا مگر یہ سب بھی سیاہ فاموں کے صرف ایک مطالبے کے گرد گھومتا رہا کہ
“مجھے انسان سمجھا جائے۔”
کتنا کربناک ہے یہ احساس کہ آج ہماری اپنی آزاد ریاست میں، اپنی ہی شناخت، اپنے ہی لباس اور اپنی ہی ثقافت کے ساتھ ہمیں بھی اسی مطالبے کو دہرانا پڑ رہا ہے کہ
“مجھے اپنی شناخت کے ساتھ جینے دیا جائے۔”
کیا ایک شلوار قمیض میں ملبوس پاکستانی شہری کو کسی ریستوران کے دروازے پر روکنا اُسی امتیازی روش کی بازگشت نہیں جس نے ماضی میں امریکہ، جنوبی افریقہ اور برطانوی نوآبادیات کو شرمندگی کی دلدل میں دھکیل دیا تھا؟ کیا یہ اصرار نہیں کہ “مہذب” وہی ہے جو مغربی تراش خراش میں ڈھلا ہو؟ کیا اِس سوچ کی جڑیں بھی اُسی برتری کے خمار سے نہیں پھوٹتیں، جس نے سفید رنگ کو “پیارا” اور مقامی لباس کو “پسماندہ” قرار دیا؟
برصغیر کی گلیوں میں انگریز کے اقتدار کا سورج چمکتا تھا اور ہر بڑے کلب، ریستوران، ہوٹل اور نائٹ کلب پر ایک سنہری تختی چمکتی تھی
“صرف یورپینز کے لیے!”
وہ مقام تھا جہاں کسی مقامی کا داخلہ گناہ کے زمرے میں آتا تھا، چاہے وہ مقامی شخص کسی بھی علم و ہنر کا شناور ہو یا کسی بھی دولت کا وارث ہو۔
یہ تحقیر صرف جسمانی دروازوں پر نہیں، ذہنوں پر بھی لگائی گئی اور لگتا ہے ہم نے آزادی کی آٹھ دہائیوں کے بعد بھی اس زنجیر کو دل سے نکالنے کی زحمت نہیں کی۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ ہم آج بھی اُسی آقائی ذہنیت کے وکیل بنے ہوئے ہیں جو ہمیں کمتر سمجھتی تھی اور آج ہم اپنے لباس، اپنی زبان اور اپنے وقار کے خلاف خود ہی عدالت میں گواہی دے رہے ہیں۔
ریستوران کے دروازے پر شلوار قمیض پہننے والے کو روکے جانے کا مطلب صرف یہ نہیں کہ “ڈریس کوڈ” پر عمل نہیں ہوا بلکہ اس کے پیچھے ایک خفیہ پیغام چھپا ہے، ایک بلند و بانگ مگر خاموش پیغام کہ
“یہ دروازہ تمہارے جیسے لوگوں کے لیے نہیں ہے۔”
اس سے بڑھ کر ہمارے شعور کی شکست اور کیا ہوسکتی ہے؟ اور اس ستم کی ایک اور پرت ہے اور وہ ہے معاشی و سماجی تعصب کی گہری پرت۔
یہ کہنا کہ شلوار قمیض صرف دیہاتی، پینڈو یا غیر مہذب لوگوں کا لباس ہے، ایک ایسی طبقاتی سوچ کی گونج ہے جو لباس کو انسان کی عزت کا معیار ماننے پر مُصر ہے۔
کیا یہ نہیں جانتے کہ ملک کے بڑے بزنس مین، وزرائے اعلیٰ، چیف جسٹس صاحبان، صدور اور وزرائے اعظم بھی اسی شلوار قمیض میں اپنی حلف برداری کی رسم ادا کرتے رہے ہیں؟ تو کیا انہیں بھی ان دروازوں سے لوٹا دیا جائے؟ یا یہ امتیاز صرف اُن کے لیے ہے جو کچھ کم قیمت لباس پہنتے ہیں، جن کے ہاتھ میں برانڈڈ موبائل نہیں ہوتے یا جو بول چال میں انگریزی کے بے جا استعمال سے گریز کرتے ہیں؟
شلوار قمیض تو اس دھرتی کے ہر طبقے کا لباس ہے۔
اس میں مہنگے ترین فینسی برانڈز کے ریشمی کپڑے بھی ڈھلتے ہیں اور عام کُرتے کی خنکی بھی جھلکتی ہے۔ یہ لباس محض جسم کو ڈھانپنے کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ ایک بیانیہ ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ ہم کون ہیں، کہاں سے آئے ہیں اور کہاں کھڑے ہیں؟
ایسے میں متاثرہ شخص کی جانب سے کنزیومر کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانا محض ایک صارف کا اقدام نہیں بلکہ ایک شہری کے وقار کا معاملہ بن جاتا ہے، یہ ایک تہذیبی اعلان ہے کہ
“ہم اپنی شناخت سے شرمندہ نہیں، ہمیں اس پر فخر ہے۔”
یوں بھی صارف کے تحفظ کے قوانین محض ناقص اشیاء یا خدمات کے لیے نہیں ہوتے بلکہ وہ اس عدل کی بنیاد ہوتے ہیں جس پر ہر فرد کو برابری کا حق حاصل ہو اور اگر کسی کی ثقافت، زبان، لباس یا ورثہ اس کے بنیادی حقوق کے حصول میں رکاوٹ بنے تو یہ عدالتوں کے دروازے پر ایک مضبوط دستک بنتی ہے۔ یہ ایک ایسا مقدمہ ہے جو صرف فرد کا نہیں بلکہ پوری قوم کی خودداری کا سوال بن جاتا ہے۔
کراچی کا یہ واقعہ کوئی چھوٹا سا اخباری کالم بھی نہیں ہے بلکہ یہ ہماری روح پر کھنچی تلخ لکیریں ہیں۔ کہیں سے باریک اور کہیں سے گہری مگر مسلسل یہ یاد دلاتی ہوئی کہ ہمیں اپنے راستے کا تعین کرنا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم منزل کے دھوکے میں اپنے ہی نشانِ راہ کو مٹا بیٹھیں۔
وقت آچکا ہے کہ ہم خود کو خود پر فخر کرنا سکھائیں۔ ہم اپنے لباس کو فقط کپڑے نہ سمجھیں بلکہ اسے پرچم جانیں۔ ایک ایسا پرچم جو اپنی مٹی کی خوشبو میں رچا بسا ہو، جس میں ماں کی گود کی نرمی ہو اور بزرگوں کی دعاؤں کی حدّت ہو۔
آیئے! اپنی پہچان کا چراغ بجھنے نہ دیں، اسے پھر سے روشن کریں، اسی شلوار قمیض کی روشنی سے، جو ہماری ثقافت کا روشن ترین استعارہ ہے۔ یاد رکھیے کہ جو قومیں اپنی شناخت سے منہ موڑ لیتی ہیں، تاریخ بھی اُن کا نام آہستہ آہستہ بھول جاتی ہے۔
ہمیں اب ایک اجتماعی فیصلہ کرنا ہے کہ یا تو ہم شلوار قمیض پہن کر فخر سے سر اٹھائیں گے یا پھر اپنی ہی سرزمین پر اجنبی بن کر رہیں گے۔ انتخاب ہمارا ہے، یا وقار کی راہ یا غلامی کا در۔ اب خاموشی خود جرم بن چکی ہے۔ آج آپ دیوار نہ بنے، آج آپ نے مزاحمت نہ کی تو یہاں بھی سنہری تختیاں چکمنے لگیں گی، جن پر لکھا ہوگا۔
پینڈوز اینڈ ڈاگز آر ناٹ الاؤڈ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں