پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کا مستقبل ؟

تحریر شاہد محمود
آج کل رزلٹ کا موسم چل رہا ہےاور پنجاب میں میٹرک کے رزلٹ کا اعلان ہوچکا ہےاوراس کے بعد نویں کلاس ، فرسٹ ائر اور سیکنڈ ائر کے نتائج بھی آ نے والے ہیں۔ دسویں کلاس میں بچوں کے نمبر دیکھ کر کبھی کبھی رشک ہونے لگتا ہے کہ اتنے نمبر بھی کبھی انسانوں کے آسکتے ہیں لیکن اس کے بارے میں تو ماہرین تعلیم ہی کوئی تبصرہ کر سکتے ہیں ۔ میرا مقصد تو اس وقت پنجاب کے کالجز اور یونیورسٹیوں میں داخلوں پر بات چیت کرنا ہے۔ تمام پروفیشنل ڈگریوں جیسا کی میڈیکل ، انجینئرنگ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سمیت جنرل ڈگریوں کے لئے بھی اب تمام یونیورسٹیوں میں داخلے کئے جارہے ہیں اور یہ تمام اعلی تعلیم کے ادارے مختلف بورڈز سے حاصل شدہ نمبروں سے مطمئن نہیں ہیں اسی لئے تو ، ایم ڈی کیٹ، ای کیٹ سمیت تمام ڈگریوں کے لئے انٹری ٹیسٹ لازمی قرار دیا گیا ہے اور جنرل ڈگریوں کے لئے بھی یونیورسٹیاں داخلہ ٹیسٹ اور انٹرویو کا اہتمام کررہی ہیں اور مزے کی بات ہے کہ ایک ہی یونیورسٹی تین تین بار داخلہ ٹیسٹ منعقد کرکے زیادہ سے زیادہ طلبا کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کررہی ہے اور اس وقت بڑا کڑا مقابلہ چل رہا ہےاور نہ تو انٹر میں داخلہ کے لئے کالجز نے دسویں کلاس کے رزلٹ کا انتظار کیا اور نہ ہی بی ایس پروگرام میں داخلہ کے لئے یونیورسٹیوں میں بارہویں جماعت کے رزلٹ کا انتظار کیا گیا ہے اور میٹرک اور انٹر کے امتحانات کے نمبر عملاً بے وقعت ہو چکے ہیں اور اس سے بھی بڑی پرابلم یہ ہے کہ پبلک سیکٹر کی یونیورسٹیاں اپنے ہی ٹیسٹ نتائج پر نئے ٹیسٹ لے کر داخلوں کے مراحل کو بے وقعت بنارہی ہیں۔ بہت سے بنیادی مضامین میں طلبا داخلہ لینے کو تیار نہیں ہیں اور ان شعبہ جات کا عملہ فون کرکے طلباء کو داخلہ کے لئے مائل کرنے کی کوشش کررہا ہے اور جن شعبہ جات میں طلبا کا رش زیادہ ہے وہاں پر مختلف حیلوں بہانوں اور طریقوں سے قابل طلبا کو ڈس کوالیفائی کرکے کچھ من پسند افراد کو نوازنے کی کوششیں ہوتی ہیں۔ نئی داخلہ پالیسی کے مطابق انٹری ٹیسٹ میں اچھے نمبر لینے والے طلبا بورڈ میں ٹاپ کرنے والے طلبا کو مقابلہ سے باہر کر دیتے ہیں اور ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بارہ سال کے اکیڈمک پرفارمینس سے زیادہ یونیورسٹی کے ٹیسٹ اور انٹرویو کا ویٹیج رکھا جاتا ہے اور پھر بغیر کسی فارمیٹ کے بچوں سے سوالات پوچھے جاتے ہیں اور بیس سے پچیس فیصد نمبروں کے انٹرویو کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا ہے اور یہی وہ نمبر ہیں جو کسی بھی طالب علم کو نیچے سے اٹھا کر داخلہ کی میرٹ لسٹ میں پہنچا سکتے ہیں۔ داخلہ پالیسی کسی بھی پبلک یونیورسٹی میں ایک جیسی نہیں ہے اور جو والدین اپنے بچوں کو پسند کے شعبہ میں داخل کروانا چاہتے ہیں وہ ایک کے بعد ایک یونیورسٹی میں ٹیسٹ، انٹرویو اور پھر داخلہ فیس کے لئے خوار ہوتے ہیں۔ میری کئی والدین سے بات چیت ہوئی ہے جو کہتے ہیں کہ انھوں نے اپنے بچوں کے انٹری ٹیسٹ سمیت مختلف مراحل پر ہزاروں روپے خرچ کر دئیے لیکن داخلہ نہیں مل سکا ہے اور پھر پرائیویٹ یونیورسٹیوں کی داخلے بڑھانے کی پالیسی نے پبلک سیکٹر کی یونیورسٹیوں کو بھی ایک نئی دوڑ میں شامل کردیا ہے اور اب انٹری ٹیسٹ ایک منافع بخش کاروبار بن گیا ہے اور یونیورسٹیاں ہر سال لاکھوں طلبا کو انٹری ٹیسٹ کے لئے بلاتی ہیں اور پھر طلبا کو دو دو تین تین بار انٹری ٹیسٹ میں نمبر بڑھانے کے لئے موقع فراہم کرتی ہیں اور ہر بار تین سے چار ہزار روپے انٹری ٹیسٹ کی فیسیں وصول کرکے سالانہ کروڑوں روپے انٹری ٹیسٹ سے کماتی ہیں اور کمال کی بات یہ ہے کہ انٹری ٹیسٹ میں پاس یا فیل کی گنجائش نہیں ہوتی اور تمام طلباء کو داخلہ کے لئے اپلائی کرنے کا موقع دے دیا جاتا ہے۔ پبلک سیکٹر کی یونیورسٹیوں میں داخلہ لینا جہاں مشکل ہو گیا ہے وہیں پر ان اداروں کی بڑھتی ہوئی فیسیں ادا کرنا بھی اب ایک عام طالب علم کے لئے ناممکن ہوتا جارہا ہے اور اس پر مزید مسائل یہ کہ سیلف سپورٹ کے نام پر انھیں اداروں میں ایکسٹرا فیسوں پر طلبا کو ایڈجسٹ کیا جاتا ہے اور اس طرح تعلیم کو اچھا خاصا کاروبار بنادیا گیا ہے جبکہ دوسری طرف تعلیم کی ڈگریاں حاصل کرکے الماری میں رکھنے کے سوا کسی کام نہیں آتی ہیں اور نوجوان جاب کے لئے دھکے کھاتے ہیں اور ملک چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ پبلک سیکٹر کی یونیورسٹیوں میں بہت سارے شعبہ جات ایسے ہیں جن کے جلد بند ہونے کے امکانات پیدا ہوتے جارہے ہیں۔ مجھے ایک ماہر تعلیم نے بتایا کہ جس طرح سے طلبا پری میڈیکل اور پری انجینئرنگ سے متنفر ہورہے ہیں اور ہر طالب علم آئی ٹی اور کمپیوٹر کے فیلڈ میں جانے کے لئے داخلے لے رہا ہے تواس وقت حالت یہ ہوگئی ہے کہ پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں داخلے مکمل نہیں ہورہے ہیں، انجینئرنگ یونیورسٹی میں بہت سارے شعبہ جات میں سیٹیں پر نہیں ہورہی ہیں اور بیالوجی سمیت کیمسٹری جیسے مضامین کے اساتذہ کی نوکریاں ختم ہورہی ہیں جبکہ خبریں یہ بھی ہیں پبلک سیکٹر کی یونیورسٹیوں میں جہاں چند سال پہلے طلبا داخلے لینے کے لئے ترستے تھے اب ان یونیورسٹیوں میں ہزاروں سیٹیں پر نہ ہونے کے امکانات بڑھتے جارہے ہیں اور ایسے گھمبیر حالات میں مزید اضافہ تب ہوتا ہے جب ان ہی یونیورسٹیوں کے پاس پڑھانے کے لئے اساتذہ بھی موجود نہیں ہیں چند دن پہلے لاہور کی سب سے بڑی یونیورسٹی میں ایم فل کے داخلوں کے دوران ایک شعبہ کے ڈین سے ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ ان کے پاس اس شعبہ میں محض دو پی ایچ ڈی اساتذہ موجود ہیں جس کی وجہ سے ایم فل کی اصل سیٹوں پر بھی داخلہ نہ ہو سکا۔ اس وقت پبلک سیکٹر کی یونیورسٹیوں اور سرکاری میڈیکل کالجوں کی فیکلٹی میں اساتذہ کی شدید کمی ہے اور طلبا پرائیویٹ یونیورسٹیوں کو ان سرکاری یونیورسٹیوں پر فوقیت دینے لگے ہیں اور اس طرح پرائیویٹ سکولوں کی اجارہ داری کا سلسلہ بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ پرائیویٹ یونیورسٹیوں نے پبلک سیکٹر کی یونیورسٹیوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے لیکن ان مسائل کی کسی حکومت کو کوئی فکر نہیں ہے ۔ اس صورتحال میں ہائر ایجوکیشن کمیشن جیسے اداروں اور خود حکومت کو ٹھوس پالیسی بنانے کی ضرورت ہے پبلک سیکٹر کی یونیورسٹیوں میں داخلہ کے لئے اگر انٹری ٹیسٹ ضرور ی ہے تواس کے لئے کوئی یونیفارم پالیسی بنائی جائے اور ٹیسٹ کے بعد انٹرویو کے نام پر جو داخلہ کے لئے من پسند طلبا کو نوازا جاتا ہے اس پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے ورنہ آنے والے دنوں میں جس طرح یہ سرکاری یونیورسٹیاں اپنا سٹیٹس اور معیار کھو رہی ہیں تو ان یونیورسٹیوں کو اپنی بقا کو قائم رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ میں نے اپنی زندگی میں بڑی تیزی سے سرکاری تعلیمی اداروں کو اپنا مقام کھوتے ہوئے دیکھا ہے جن اداروں کی کبھی مناپلی ہوا کرتی تھی آج وہ اپنی بقا کی جنگ لڑی رہے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں