مودی پر جنگی جنون سوار، بھارتی اقدامات خطے کا امن تباہ کر سکتے ہیں، وزیر اطلاعات

اسلام آباد ۔وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ نریندر مودی جنگی جنون میں مبتلا ہیں اور بھارت کے حالیہ اقدامات جنوبی ایشیا کے امن کو شدید خطرات سے دوچار کر سکتے ہیں۔

جنوبی ایشیا میں امن کے قیام کے حوالے سے منعقدہ پالیسی ڈائیلاگ سے خطاب کرتے ہوئے عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ خطے میں ہونے والے دہشت گردی کے متعدد واقعات میں بھارت کا ہاتھ رہا ہے۔ پہلگام حملے کے تناظر میں پاکستان کا مؤقف ابتدا سے واضح رہا ہے کہ ہمارا ملک خود دہشتگردی کا شکار رہا ہے۔ دنیا میں کوئی اور ملک دکھا دیں جس نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں 90 ہزار قیمتی جانوں کی قربانی دی ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے بے شمار قربانیاں دے کر دنیا کو دہشتگردی کی لعنت سے بچایا ہے۔ پہلگام سانحے میں پاکستان پر الزام تراشی کی گئی، حالانکہ ہمارا مؤقف ہے کہ جو ملک خود دہشتگردی کا نشانہ ہو، وہ کسی اور ملک میں دہشتگردی کیسے کرا سکتا ہے۔ بھارتی رویے خطے کے امن کے لیے شدید خطرہ ہیں۔

عطا اللہ تارڑ نے مزید کہا کہ وزیراعظم نے کاکول میں اپنی تقریر کے دوران پہلگام واقعے کی مشترکہ تحقیقات کی پیش کش کی، لیکن بھارت اُس وقت انتہا پسندانہ سوچ میں مبتلا تھا۔ آج مودی سیاسی طور پر اندرون ملک جتنے کمزور ہیں، پہلے کبھی نہ تھے۔ ہم نے پہلگام کے بعد بین الاقوامی صحافیوں کو وہ تمام مقامات دکھائے جہاں بھارت بے بنیاد الزامات لگا رہا تھا۔

وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ ہم امن کے خواہاں ضرور ہیں، لیکن اس جذبے کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے۔ بھارت آبی وسائل کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ سوال یہ ہے کہ ایک عالمی معاہدے کو کوئی ملک کس طرح یکطرفہ ختم کر سکتا ہے؟

انہوں نے کہا کہ پاکستان آج بھی خطے میں امن چاہتا ہے اور کشمیر سمیت تمام مسائل کا پرامن حل نکالنے کا خواہشمند ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس بات کو تسلیم کر چکے ہیں کہ کشمیر ایک حل طلب تنازع ہے۔ پاکستان نے دنیا بھر میں یہ واضح کیا ہے کہ وہ ایک ذمہ دار اور پرامن ریاست ہے۔ دعا ہے کہ اللہ اس خطے کو امن کا گہوارہ بنائے۔

اس سے قبل، انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز اور ایک نجی جامعہ کے اشتراک سے منعقدہ پالیسی ڈائیلاگ میں سابق سیکرٹری خارجہ جوہر سلیم نے ابتدائی خطاب میں کہا کہ اگست 2019 کے بعد سے جموں و کشمیر میں بھارتی افواج کی جارحیت میں تیزی آئی ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی مذاکرات اور پرامن حل کے اصولوں پر استوار ہے، جب کہ بھارت خطے میں کشیدگی اور محاذ آرائی کو ہوا دے رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت نے ’’آپریشن سندور‘‘ کے ذریعے خطے کو بدامنی کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی، تاہم پاکستان نے ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر اپنی خودمختاری کا دفاع کرتے ہوئے بھرپور ردِعمل دیا۔

تقریب میں سابق مشیر قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف نے بھی اظہار خیال کیا۔

سینیٹر مشاہد حسین سید نے اپنے خطاب میں کہا کہ حالیہ دور میں بھارت نے اپنی ناقص حکمت عملی کے باعث عسکری، سیاسی اور سفارتی محاذ پر خسارے اٹھائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ واحد امریکی صدر ہیں جو امریکی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی نمائندگی نہیں کرتے اور جنگوں کے خلاف مؤقف رکھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ عالمی حالات میں تیسرا اہم عنصر چین ہے۔ اس وقت تین اہم سہ فریقی اتحاد قائم ہو چکے ہیں: پہلا پاکستان، افغانستان اور چین، دوسرا پاکستان، بنگلادیش اور چین، جبکہ تیسرا اہم قدم ترکمانستان، افغانستان اور پاکستان کے مابین ریلوے نیٹ ورک کا معاہدہ ہے۔ جنوبی ایشیا ایک ابھرتی ہوئی طاقت کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت صرف مودی اور آر ایس ایس کا نام نہیں، بلکہ ایک ریاست ہے۔ تاہم اسے سفارتی، سیاسی اور ذرائع ابلاغ کے محاذوں پر اپنی جارحانہ پالیسیوں کا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے۔ اگرچہ امریکی نظام بھارت کا حامی ہے، لیکن صدر ٹرمپ کی جانب سے بھارت کو کئی مواقع پر مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے پاکستان کے لیے ٹیرف ختم کر کے دوطرفہ تجارتی تعلقات کو مضبوط کیا۔

مشاہد حسین سید کا کہنا تھا کہ مودی اور آر ایس ایس کی خارجہ پالیسی نظریاتی طور پر پاکستان مخالف ہے، لیکن موجودہ عالمی صورتِ حال میں پاکستان کے لیے اسٹریٹیجک مواقع پیدا ہو رہے ہیں، جن سے فائدہ اٹھایا جانا چاہیے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں