پاکستان میں میڈیا کو درپیش چیلنجز ، قسط نمبر 1
سیاسی جماعتوں کی یورش کے سامنے نحیف اور نہتا میڈیا
میڈیا کسی بھی جمہوریت میں چوتھے ستون کا کردار ادا کرتے ہوئے عوامی شعور بیدار کرتا ہے، حکمرانوں کی کارکردگی پر نظر رکھتا ہے اور حکومتی پالیسیوں اور ان پر عملدرآمد کا احتساب کرتا ہے۔ مگر جب یہی میڈیا سیاسی جماعتوں کے زیرِ اثر آ جائے تو وہ عوامی خواہشات کا آئینہ بننے کے بجائے طاقت کا آلہ کار بن جاتا ہے۔ افسوسناک طور پر پاکستان میں گزشتہ چند دہائیوں میں اس رجحان میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔
سیاسی جماعتیں اب میڈیا ہاؤسز، اینکرز اور سوشل میڈیا انفلوئنسرز کو براہِ راست یا بالواسطہ قابو میں رکھ کر اپنی مرضی کا بیانیہ پھیلاتی ہیں۔ یہ عمل صرف صحافت کی آزادی کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کے جمہوری عمل، معاشرتی ہم آہنگی اور عوامی فہم و شعور کیلئے بھی مہلک ثابت ہو رہا ہے۔
سیاسی جماعتیں پاکستان میں میڈیا پر اثراندازی کے لیے کئی طریقے استعمال کرتی رہی ہیں۔
مالی مفادات اور اشتہارات کی بندربانٹ
ریاستی و جماعتی اشتہارات میڈیا اداروں کو قابو میں رکھنے کا ایک مؤثر ہتھیار ہیں۔ حکومتی جماعتیں اپنے وفادار میڈیا ہاؤسز کو بھاری رقوم دیتی رہی ہیں اور تنقید کرنے والے اداروں کو اشتہارات سے محروم کردیا جاتا ہے۔ رواں دہائی میں 2018 کے بعد جنگ گروپ، ڈان میڈیا گروپ اور اس طرح کے دیگر اداروں کو پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے اشتہارات کی بندش کا سامنا رہا۔ ظاہر ہے یہ مالی دباؤ میڈیا کی ادارتی آزادی کو مفلوج کر دیتا ہے۔
پارٹیوں سے وابستہ میڈیا آؤٹ لیٹس کی تخلیق
سیاسی جماعتیں اب اپنے قریبی کاروباری افراد یا کارکنان کے ذریعے مخصوص میڈیا چینلز یا ویب سائٹس چلوا رہی ہیں۔ مثال کے طور پر پی ٹی آئی کے دور میں بول نیوز اور92 نیوز جیسے اداروں کو پی ٹی آئی کے بیانیے کے فروغ کے لیے استعمال کیا گیا۔ اسی طرح دیگر جماعتوں کے قریب سمجھے جانے والے کچھ اخبارات اور یوٹیوب چینلز اپنی خبروں میں ان جماعتوں کا رنگ نمایاں رکھتے ہیں۔
اینکرز کی وابستگی اور نظریاتی صف بندی
پاکستانی میڈیا کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ معروف اینکرز اب صحافیوں سے زیادہ سیاسی مبصر یا جماعتی ترجمان بن چکے ہیں۔ ان کی وابستگیاں اس حد تک ظاہر ہو چکی ہیں کہ اکثر ناظرین بھی چینل یا اینکر کے پروگرام کو دیکھ کر اس کی سیاسی جھکاؤ کا اندازہ لگا لیتے ہیں۔
سوشل میڈیا انفلوئنسرز کی خرید و فروخت
ٹویٹر، فیس بک، انسٹاگرام اور یوٹیوب پر موجود صحافی یا انفلوئنسر اکثر غیر رسمی طور پر سیاسی جماعتوں سے مراعات، معلومات یا معاوضہ لے کر ان کے بیانیے کو آگے بڑھاتے ہیں۔ Digital Disinformation Lab کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر بڑی جماعت کا ایک ڈیجیٹل ونگ موجود ہے جو باقاعدہ “ٹرینڈز” چلاتا ہے، “ناراض اینکرز” کے خلاف مہمات لانچ کرتا ہے اور مخالف صحافیوں کو “غدار”، “لفافہ” یا “ایجنٹ” قرار دیتا ہے۔
پی ٹی آئی کی ڈیجیٹل گرفت
2018 کے بعد تحریکِ انصاف نے میڈیا پر کنٹرول کے لیے ایک مربوط ڈیجیٹل حکمت عملی اپنائی۔ “ٹائیگر فورس” اور “سوشل میڈیا سیل” کے ذریعے مخالف صحافیوں کے خلاف باقاعدہ مہمات چلائی گئیں۔ تنقید کرنے والے صحافیوں کو نوکریوں سے نکلوایا گیا اور انہیں آن لائن بدنام کیا گیا۔ اس کے علاوہ ان پر جھوٹے الزامات لگائے گئے اور ان کی نجی زندگیوں تک کو نشانہ بنایا گیا۔
Friedrich Naumann Foundation کی رپورٹ “Propaganda & Populism in Pakistan” کے مطابق
“PTI utilized a narrative-based digital ecosystem where influencers were rewarded, and dissenters were targeted, leading to an atmosphere of fear and ideological conformity.”
ادارتی آزادی کا خاتمہ
جب ادارے اشتہارات یا ذاتی مفادات کی وجہ سے کسی سیاسی بیانیے کی غلامی کرنے لگیں تو تحقیقاتی صحافت، تنقیدی رپورٹنگ اور غیر جانبدار تجزیے ختم ہو جاتے ہیں۔ نتیجتاً عوام کو یکطرفہ خبریں اور گمراہ کن تبصرے پڑھنے، سننے اور دیکھنے کو ملتے ہیں۔
سچ اور فیک نیوز کے درمیان فرق کا خاتمہ
سیاسی جماعتوں کے کنٹرول میں چلنے والے چینلز یا انفلوئنسرز اکثر حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔ جھوٹ کو بار بار دہرایا جاتا ہے تاکہ وہ “سچ” محسوس ہو۔ اس کا سب سے بڑا اثر عوامی شعور پر پڑتا ہے جو اب نظریاتی خیموں میں بٹ چکا ہے۔
صحافیوں کی تقسیم اور دھڑے بندی
صحافیوں کی نمائندگی کی دعویدار ملک گیر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلٹس اس وقت درجنوں گروہوں میں بٹ چکی ہے اور اب صحافی خود ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن نظر آتے ہیں۔ ٹوئٹر پر صحافیوں کی باہمی جنگ ایک دوسرے پر لفافہ ہونے کے الزامات اور نظریاتی منافرت صحافتی برادری کو تقسیم در تقسیم کر چکی ہے۔
عوامی اعتماد کا زوال
Gallup Pakistan کی ایک رپورٹ کے مطابق 65 فیصد پاکستانیوں کو لگتا ہے کہ “میڈیا اب کسی نہ کسی سیاسی جماعت کا ترجمان بن چکا ہے”۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عوام اب میڈیا کو اعتماد کے بجائے شکوک و شبہات کی نگاہ سے دیکھنے لگے ہیں۔
سیاسی پولرائزیشن میں شدت
ماضی میں ایک پل کا کردار ادا کرنے والا میڈیا اب ایسی خندق بن چکا ہے جسے پاٹنا ممکن نہیں لگتا اور ہر چینل ایک نظریاتی قلعہ بنا معلوم ہوتا ہے جسے سر کرنا مشکل لگتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ معاشرہ شدید تقسیم کا شکار ہو چکا ہے۔
نفرت انگیزی اور عدم برداشت کا فروغ
سیاسی جماعتوں کے ہمدرد اینکرز اور انفلوئنسرز اکثر مخالفین کو “وطن دشمن”، “کرپٹ مافیا” یا “فوج مخالف” جیسے الزامات سے نوازتے ہیں جس سے معاشرتی نفرت میں اضافہ ہوتا ہے۔
غیر فعال رائے عامہ
جب تمام آراء ایک ہی پارٹی کے بیانیے کے گرد گھومتی ہوں تو عوام کا تنقیدی شعور مر جاتا ہے۔ لوگ سیاست کے بارے میں صرف وہی جانتے ہیں جو جماعتی چینلز انہیں بتاتے ہیں۔
بین الاقوامی تشویش اور تنقید
Reporters Without Borders (RSF) اور Committee to Protect Journalists (CPJ) جیسی تنظیمیں کئی بار پاکستانی میڈیا میں سیاسی اثرورسوخ پر تشویش ظاہر کرچکی ہیں۔ اسی طرح ایک رپورٹ کے مطابق
“Pakistan’s media landscape is now marked by growing partisanship and the rise of political clientelism, where media houses serve partisan interests rather than public accountability.”
کیا حل ممکن ہے؟
آسان سا جواب تو یہ ہے کہ، جی ہاں، کیوں نہیں؟ مگر پھر سوال بنتا ہے کہ کیسے؟ تو اس کیلئے ۔۔۔۔۔۔۔۔
ادارتی خود مختاری کی قانونی ضمانت
پاکستان میں میڈیا مالکان اور ایڈیٹوریل ٹیموں کے درمیان ایک واضح فاصلہ ہونا چاہیے جیسا کہ BBC ماڈل میں موجود ہے۔ اس کے لیے قانون سازی اور ادارتی ضابطوں (کوڈز) کی ضرورت ہے۔
اشتہارات کی منصفانہ تقسیم
سرکاری اشتہارات کو ایک شفاف اور خودکار طریقہ کار کے تحت تقسیم کیا جائے تاکہ حکومتی یا جماعتی پسند ناپسند اس میں دخل نہ دے سکیں۔
صحافتی اخلاقیات اور خود احتسابی نظام
پاکستان میں میڈیا کے اندرونی احتساب کے لیے مضبوط ادارے Ombudsman کا قیام اور متحرک ہونا ضروری ہے جو انفلوئنسرز اور رپورٹرز کی جانبداری پر کارروائی کرسکے۔
عوامی میڈیا لٹریسی
عوام کو یہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ وہ میڈیا پر انے والے مواد (کانٹنٹ) کو تنقیدی نظر سے دیکھیں، ذرائع کو پرکھیں اور یکطرفہ بیانیے سے متاثر ہونے کے بجائے مختلف آراء کو پرکھ کر کوئی رائے قائم کریں۔
قارئین محترم! حقیقت یہی ہے کہ پاکستان کا میڈیا جس تیزی سے سیاسی جماعتوں کے اثر میں آ رہا ہے وہ تشویشناک قومی المیہ بنتا جا رہا ہے۔ یہ محض صحافت کی آزادی کا مسئلہ نہیں بلکہ جمہوریت، عوامی شعور اور معاشرتی ہم آہنگی کیلئے بھی ایک سنگین خطرہ ہے۔ اگر ہم ایک مضبوط، غیر جانبدار اور باوقار میڈیا چاہتے ہیں تو ہمیں سیاست اور صحافت کے درمیان لکیر دوبارہ کھینچنی ہوگی اور یہ کام اکیلا صحافی نہیں کرسکتا بلکہ عوام، سول سوسائٹی اور قانون ساز برادری مل کر کرسکتے ہیں۔











