اسلاف کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کا موقع

تحریر: اعجاز چیمہ

ایرانی صدر مسعود پزشکیان کا دورہ پاکستان صرف ایک سرکاری دورہ نہیں بلکہ دونوں ممالک کے درمیان تہذیبی رشتوں کی ازسرِ نو بیداری کا نام ہے۔ پاکستان اور ایران کے درمیان سرحدیں جغرافیائی ضرورت ہوسکتی ہیں مگر دل، دماغ اور روح کی سرحدیں تو صدیوں پہلے حافظ شیرازی کے اشعار، سلطان باہو کے کلام، علامہ اقبال کی فارسی گوئی اور شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری نے مٹا دی تھیں۔ یہ محض دو ممالک کے سربراہان کا ملنا نہیں تھا بلکہ ایک تہذیب کی دو شاخوں کا دوبارہ اکٹھا ہونا ہے جس کی جڑیں بغداد کے علمی مراکز سے لے کر دہلی کے لال قلعے تک پھیلی ہوئی ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ جب برصغیر میں فارسی سرکاری زبان تھی تو دہلی اور اصفہان کے درمیان فکری اور ثقافتی خون کی گردش ایک ہی دل سے ہوتی تھی۔ آج بھی ایرانی گھروں میں علامہ اقبال کے فارسی کلام کی گونج سنائی دیتی ہے جبکہ پاکستان کے مدارس میں مولانا رومی کی مثنوی روحانی غذا بنی ہوئی ہے۔ یہ وہ رشتہ ہے جسے سیاست کی سرحدیں توڑ نہیں سکیں، جنگی جنون ختم نہیں کر سکا اور عالمی سرد جنگ متاثر نہیں کرسکی۔ گزشتہ دنوں جب ایران پر اسرائیل اور امریکہ کی مشترکہ جارحیت ہوئی تو پاکستان کا موقف محض سفارتی بیان نہیں تھا بلکہ درحقیقت یہ اس تہذیبی رشتے کا تقاضا تھا جہاں ایک بھائی کی تکلیف دوسرے کے دل کو چھو لیتی ہے۔ ایرانی عوام نے اس یکجہتی کو دل سے محسوس کیا اور اب صدر مسعود پزشکیان کے دورے میں جو جذباتی گرمجوشی نظر آئی وہ اسی قلبی تعلق کا ثمر ہے۔

گزشتہ برس مرحوم ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے دورہ پاکستان کے دوران جو معاہدے طے پائے تھےیہ دورہ ان کی تکمیل کا موقع تھا۔ دونوں ممالک کی قیادت اس موقع پر جس حکمت عملی پر زور دیا وہ صرف کاغذی معاہدے نہیں بلکہ زمینی حقائق بدل دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ دس ارب ڈالر تک تجارتی حجم بڑھانے کا عزم محض عدد نہیں بلکہ خطے کی معاشی تقدیر بدل دینے والا منصوبہ ہے۔ سرحدی مارکیٹوں کے قیام سے نہ صرف بلوچستان اور سیستان کے پسماندہ علاقوں میں خوشحالی آئے گی بلکہ وہ غیر مرئی دیواریں بھی گر جائیں گی جو بیرونی طاقتوں نے ہمارے درمیان کھڑی کر رکھی ہیں۔ جب ریم کن کے راستے ایرانی تاجر چین تک پہنچیں گے اور پاکستانی بندرگاہیں ایران کی تجارت کا مرکز بنیں گی تو پھر اس خطے کو دنیا کی معاشی سپر پاور بننے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔

سیکورٹی کے حوالے سے صدر مسعود پزشکیان کا بیان چشم کشا تھا کہ “دشمن مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے کی سازشیں کر رہا ہے”۔ یہ وہ کڑوا سچ ہے جسے پاکستان کے سرحدی علاقوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ایرانی صدر کا یہ اعتراف کہ باہمی تعاون سے ہی علاقائی سلامتی ممکن ہے درحقیقت سیکیورٹی پالیسی میں ایک انقلابی تبدیلی کی نوید ہے۔ اگر پاکستان اور ایران اپنی انٹیلی جنس شیئرنگ کو حقیقی معنوں میں مشترکہ مفاد پر مرکوز کرلیں تو پھر خطے میں دہشت گردی کے عفریت کا خاتمہ ممکن نظر آتا ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف کے الفاظ نے پاکستان کی نئی خارجہ پالیسی کی عکاسی کی ہے۔ چین کے ساتھ سدا بہار تعلقات، ایران سے گہرے روابط اور امریکہ سے بحال ہوتی ہوئی دوستی، یہ مثلث درحقیقت پاکستان کی خودمختار خارجہ پالیسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ وہ توازن ہے جو بھارت کی حالیہ شکست کے بعد پیدا ہوا ہے۔ جب فضائیہ کے جواں مرد پائلٹوں نے بھارتی رافیل طیاروں کا ملبہ زمین پر بکھیرا تو دنیا نے پہلی بار پاکستان کی حقیقی دفاعی صلاحیت کو تسلیم کیا۔ اب یہ دورہ اس بحرانی صلاحیت کو معاشی طاقت میں بدلنے کا پلیٹ فارم ثابت ہوگا۔
مگر سب سے گہرا اثر جو اس دورے سے مرتب ہوگا وہ عوامی سطح پر ہوگا۔ جب ایرانی ٹیکنالوجی پاکستانی کھیتوں میں پیداوار بڑھائے گی، جب زاہدان کے بازاروں میں پاکستانی چاول کی خوشبو پھیلے گی اور جب کراچی کی بندرگاہوں سے ایرانی تیل کی ترسیل ہوگی تو پھر عام آدمی کے دل میں یہ احساس جاگے گا کہ ہماری قسمت ایک دوسرے سے جُڑی ہوئی ہے۔ یہ وہ جذباتی یکجہتی ہے جو سیاسی معاہدوں سے کہیں زیادہ مضبوط ہوتی ہے۔ بہت سی باتیں ابھی بظاہر ناممکن لگتی ہیں لیکن جب عوام کے دل آپس میں مل جائیں تو پھر بڑی سے بڑی مشکلات کا بھی حل نکل آتا ہے۔

ایرانی صدر کا یہ دورہ درحقیقت اس نئے عالمی نظام کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتا ہے جہاں مسلم ممالک اپنی تقدیر خود لکھیں گے۔ جب ہم اقتصادی خود انحصاری حاصل کریں گے، دفاعی صلاحیت میں ایک دوسرے کا سہارا بنیں گے اور ثقافتی یگانگت کو اپنا شناختی کارڈ بنائیں گے تو پھر کوئی بیرونی طاقت ہمیں اپنا آلہ کار نہیں بنا سکتی۔ صدر مسعود پزشکیان اور وزیراعظم شہباز شریف نے جو بیج آج بو دیا ہے اس کی آبیاری دونوں قوموں کو مل کر کرنی ہوگی۔ تاریخ ہمیں موقع دے رہی ہے کہ ہم اپنے اسلاف کے خواب کو شرمندہ تعبیر کریں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی مشترکہ تہذیبی روایت کو سیاست، معیشت اور سیکورٹی کا ناقابلِ تسخیر قلعہ بنائیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں