کراچی کے علاقے گلستان جوہر میں پولیس اور وکلا کے درمیان گاڑی کی بازیابی پر ہونے والے تصادم میں متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او اور پولیس اہلکاروں کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا۔
گزشتہ روز عدالتی حکم کے باوجود گاڑی وکلا کے سپرد نہ کرنے پر پولیس اور وکلا کے درمیان تلخ کلامی ہنگامہ آرائی کی شکل اختیار کر گئی تھی جس کے بعد دونوں میں تصادم بھی ہوا تھا۔
واقعے کے بعد کئی وکلا اور سرکاری لا یونیورسٹی کے طلبا تھانے پہنچ گئے اور وہاں مرکزی سڑک پر پولیس کے خلاف دھرنا دیا تھا۔
بعدازاں وکیل قادر راجپر کی شکایت پر سینئر افسران کے ساتھ مذاکرات کے بعد گلستان جوہر تھانے کے ایس ایچ او، پولیس اہلکار اور چند دیگر افراد کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
ایس ایچ او اور پولیس اہلکاروں پر وکلا نے لاٹھی چارج اور فائرنگ کے الزامات لگائے تھے۔
پولیس اور عینی شاہدین کے مطابق پولیس اور وکلا کے درمیان جھگڑا ہوا جس میں درخواست گزار سمیت 3 وکلا اور 4 پولیس اہلکار زخمی ہوگئے۔ ان کا کہنا تھا کہ وکیل قادر راجپر مقامی عدالت کے حکم پر اپنے موکل کی ضبط شدہ گاڑی کی بازیابی کے لیے گلستان جوہر گئے تھے جہاں ایس ایچ او راجا تنویر نے قانون خلاف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انہیں بند کر دیا۔
ضلع شرقی کی پولیس کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ وکیل قادر راجپر کچھ قانونی کارروائی کے لیے جوہر پولیس اسٹیشن پہنچے جہاں گلستان جوہر کے ایس ایچ او نے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انہیں کر دیا اور جب وکیل نے ان سے حراست کی وجہ پوچھی تو الٹا ان کو مارا پیٹا۔
ابتدائی تفتیش کے دوران ایس ایچ او کے خلاف شواہد سامنے آئے جس کے بعد ایس ایچ او کو معطل کر دیا گیا ہے اور قانونی کارروائی کے لیے ان کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کر لی گئی ہے۔
ایف آئی آر کے مندرجات کے مطابق درخواست گزار قادر بخش راجپر نے بتایا کہ ایس ایچ او، ان کے عملے اور ایس ایچ او کے 20 سے زائد پرائیویٹ افراد نے انہیں اور دیگر وکلا کو مارا پیٹا، ان پر لاٹھی چارج کے بعد فائرنگ بھی کی گئی جس کے نتیجے میں متعدد وکلا زخمی ہوگئے۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ایس ایچ او نے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دہشت گردی کا ارتکاب کیا اور وکلا کو قتل کرنے کی کوشش کی، غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا اور ہراساں بھی کیا۔
پولیس نے ایس ایچ او، عملے اور پرائیویٹ افراد کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 147، 148، 149، 339، 506، 349، 324 اور انسداد دہشت گردی ایک کی دفعہ 7 کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے۔
ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ واقعے میں ملوث کسی بھی شخص کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا۔