لاہور: موسیقی کے بے تاج بادشاہ استاد نصرت فتح علی خان کو اپنے مداحوں سے جدا ہوئے 27 برس بیت گئے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق پاکستان اور بھارت میں یکساں مقبول نامور موسیقار نصرت فتح علی خان نے اپنے طویل کیریئر کے دوران عارفانہ کلام، گیتوں، غزلوں اور قوالیوں سے دنیا کو اپنا گرویدہ بنائے رکھا، فنی خدمات پر صدارتی ایوارڈ سمیت متعدد ملکی اور عالمی اعزازات سے بھی نوازا گیا۔
شنہشاہ قوالی نے فیصل آباد کے ایک قوال گھرانے میں 13 اکتوبر 1948 کو آنکھ کھولی، 16 سال کی عمر میں قوالی کا فن سیکھا، قوالی کے ساتھ غزلیں، کلاسیکل اور صوفی گیت بھی گائے۔
نصرت فتح علی خان صوفیانہ کلام کو اس مہارت سے گاتے تھے کہ سننے والوں پر وجد طاری ہو جاتی۔ سروں کے شہنشاہ نے مغربی سازوں کو استعمال کر کے قوالی کو جدت کے ساتھ ساتھ ایک نئی جہت بخشی، ان کی قوالی ’دم مست قلندر علی علی‘ کو عالمی مقبولیت حاصل ہے۔
میری زندگی ہے تو، کسی دا یار نا وچھڑے، تم اک گورکھ دھندا ہو، یہ جو ہلکا ہلکا سرور ہے، اللہ ھو اور وہی خدا ہے سمیت کئی قوالیاں آج بھی عظیم گلوکار کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
نصرت فتح علی خاں کی قوالی کے 125 سے زائد آڈیو البم جاری ہوئے، ان کا نام گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی شامل ہے، انہیں پرائیڈآف پرفارمنس سمیت متعدد ملکی اور عالمی ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔ نصرت فتح علی خان 16 اگست 1997 کو لندن کے ایک اسپتال میں دل کا دورہ پڑنے کے بعد اس دار فانی سے رخصت ہو گئے لیکن وہ اپنے پرستاروں کے دلوں میں آج بھی زندہ ہیں۔