پابندیوں کی سرکار

پابندیوں کی سرکار شاہد محمود کا کالم خوشآمد

پابندیوں کی سرکار تحریر شاہد محمود عنوان خوشآمد
چند ماہ پہلے چین کے گڈ ول سفیر سے ملاقات ہوئی اور لمبی نشست کے دوران انھوں نے دو باتیں ایسی کہیں جو واقعی سوچنے کے قابل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چینیوں کا خیال ہے کہ پاکستانی حکومتوں اور اداروں کے پاس مسائل کو حل کرنے کی اہلیت ہی نہیں ہے اس لئے یہ لوگ ہرا س کام پر پابندی لگا دیتے ہیں جو انھیں سجھائی نہیں دیتا ہے اور دوسری اہم بات یہ تھی کہ پاکستان کے پاس مشکلات اور بحرانوں سے نکلنے کے لئے ٹھوس منصوبہ بندی درکار ہے اور پاکستان کے پاس زراعت کی ترقی، معدنیات پر فوکس کرنے اور آئی ٹی انڈسٹری پر کام کرنے کے سوا ترقی کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے اور چینی ماہرین نے اس سلسلہ میں پاکستانی حکام کا مشورے بھی دئیے ہیں اس لئے حکومت کو چاہئیے کہ پہلی فرصت میں ایسی پالیسیاں بنائے جن سےایک طرف تو فضول کاموں میں سرمایہ ضائع کرنے کی بجائے باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ ملک کو آگے لے جایا جائے اور ساتھ ہی ملک میں میرٹ کی عملداری کرکے ایسے قابل افراد کو سامنے لایا جائے تاکہ بروقت پلاننگ کرکے ملک کو گردابوں سے نکالا جا سکے۔
پاکستان ہر کچھ عرصہ کے بعد کسی نئے بحران میں پھنس جاتا ہے اور ہم ایڈہاک بنیادوں پر اس مسئلہ سے نمٹنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب نااہلیت کی بناء پر اس مسئلہ ہر قابو نہیں پاسکتے ہیں تو پھر جلد بازی میں تمام سرگرمیوں کو ہی بین کردیتے ہیں جس کی وجہ سے ناصرف ملک کے اندر کاروباری اور سماجی سرگرمیاں ماند پڑتی ہیں اور ساتھ ہی ایک بڑا طبقہ معاشی بحرانوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ آج کل بھی کچھ ایسا ہی چل رہا ہے کہ جیسے ہی نومبر کا مہینہ آیا اور پنجاب کے شہر شدید سموگ کی زد میں آئے تو حکومت نے ایک کے بعد ایک پابندیاں لگانا شروع کردیں اور سب سے پہلے تعلیمی اداروں کو بند کردیا اور جب اس عمل سے معاملہ حل نہ ہو سکا اور سموگ کی شدت بڑھتی ہی گئی تو پھر مارکیٹوں کو آٹھ بجے بند کرنے کا حکم نامہ جاری ہو گیا اور ساتھ ہی دوسرے مرحلہ میں لاک ڈان لگاتے ہوئے ہیوی ٹریفک کے شہروں میں داخلے پر پابندی لگائی جارہی ہے جبکہ تعمیراتی کاموں کو بھی روک دیا گیا ہے اور ساتھ ہی اینٹوں کے بھٹے اور دھواں چھوڑتی فیکٹریوں کو بند کرنے کے احکامات جاری کردئیے گئے ہیں اس کے ساتھ ہی تمام ریسٹورنٹس پر دن چار بجے کے بعد کھانے پر پابندی ہوگی۔ اس طرح پہلے سے منجمد کاروباری سرگرمیوں کو مزید مفلوج کردیا ہے۔
یہ سموگ کوئی نئی چیز نہیں ہے کہ جسے روکنے کے لئے منصوبہ بندی نہ کی جا سکتی تھی جبکہ پہلے سے ہی ماہرین اور محکمہ موسمیات کے لوگ آگاہ کرتے رہے ہیں کہ فضا میں اوزون کی تہہ متاثر ہورہی ہے جس سے ملک آلودگی کی لپیٹ میں آ سکتا ہے اور پھر اس سے پہلے لندن میں بھی سموگ تباہی پھیلا چکی ہے اور 1952 میں لندن شہر بدترین سموگ کی زد میں آچکا ہے جہاں پچاس ہزار سے زیادہ افراد موت کے منہ میں چلے گئے تھے اور پھر انھوں نے اس مصیبت سے جان چھڑانے کے لئے دور رس منصوبہ بندی کی تھی اور 1956 میں کلین ائر ایکٹ پارلیمان سے پاس کروا کر گھروں اور فیکٹریوں میں کم دھوئیں والا ایندھن متعارف کروایا اور پھر سموگ کنٹرول زون متعارف کروائے جہاں لوگوں کو سبسڈی دی گئی تاکہ لوگوں کو بہتر کوالٹی کے ایندھن پر شفٹ کیا جاسکے اور پھر 1968 میں اس ایکٹ میں توسیع کی گئی اور اس کے بعد کے سالوں میں لندن میں ائر کوالٹی بہتر ہونے لگی۔ دوسری طرف ہمارے ہاں سموگ کو پھیلے پندرہ سال گزر گئے ہیں اور ابھی تک اس کے حوالے سے کوئی قانون سازی تک نہیں ہو سکی ہے جس کا نتیجہ آج قوم بھگت رہی ہے۔
ہم نے پچھلے پندرہ سالوں میں کیا کیا سوائے اس کے کہ سموگ کے اثرات کو بڑھاوا ہی دیا ہے۔ ہم نے شہروں سے درخت کاٹ کر سوسائٹیاں بنائیں اور پھر زرعی زمینوں سے فصلیں غائب کرکے انھیں بنجر کیا ا ور پراپرٹی کے کاروبار میں چند لوگوں نے مال بنایا اور ملک سے باہر بھاگ گئے اور شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ کو بہتر بنانے کی بجائے پورے شہر میں لاکھوں موٹر سائیکلیں جھونک دیں اور ہر شخص خود اپنی سواری کا انتظام کرنے پر مجبور ہو گیا۔
ہمارے بچپن میں والوو بسوں کی صورت میں اربن ٹرانسپورٹ کا بہترین منصوبہ چلتا تھا جسے برباد کرکے بسوں کو کچرے کے بھاؤ بیچ دیا گیا اور پھر پورے شہر میں روٹ من پسند افراد کو بیچ دئیے گئے جہاں سے اہل اختیار نے مال بنالیا اور شہر میں ویگنوں کی بھیڑ لگ گئی اور ایسی ایسی کھٹارا ویگنیں شہر میں چلنے لگیں جن کے دھوئیں سے کپڑے بھی کالے ہوجایا کرتے تھے اور پھر ان ویگنوں پر بھی پابندی لگا کر مزید آلودگی پھیلانے والے اڑھائی لاکھ رکشے اور چنگچی شہر میں پھیلا دیئے گئے جنہوں نے مزید آلودہ فضا کو جنم دیا اور ابھی بھی ہم نے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی بلکہ شہروں میں گیس کی قلت پیدا کردی اور لوگوں کو کوالٹی ایندھن سے محروم کرنا شروع کردیا اور انھیں دوبارہ دھواں پھیلانے والے ایندھن پر شفٹ ہونے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ لاہور شہر میں ترقیاتی منصوبوں کے نام پر لاکھوں درخت کاٹے گئے اور نئے درخت لگانے کی بجائے حکومتی محکمے فوٹو سیشن کرکے مال بناتے رہے ہیں۔
پچھلے پندرہ سالوں میں بدترین۔بجلی کی لوڈ شیڈنگ کرکے شہروں میں ڈیزل سے چلنے والے لاکھوں جنریٹر امپورٹ کرلئے۔ اس وقت لاہور سمیت بڑے شہروں میں کوئی بینک ، پٹرول پمپ، ریسٹورنٹ ، ہوٹل، ہسپتال ، اور کمرشل بلڈنگ ایسی نہیں ہے جہاں جنریٹر موجود نہ ہو اور یہاں تک کہ چھوٹی چھوٹی دکانوں کے باہر بھی بجلی بند ہوتے ہی جنریٹر چلنے لگتے ہیں جہاں سے کالا دھواں ہوا میں شامل ہونے لگتا ہے۔ بد قسمتی ہے کہ آج ہمارے شہروں میں پھیلنے والی زہر کی ذمہ دار خود ہماری حکومتیں اور محکمے ہیں جن کے پاس مسئلہ کا کوئی حل نہیں ہے سوائے اس کے کہ نومبر کے مہینے میں ہر چیز کو بند کر کے ملک کو مزید مسائل میں جھونک دیا جائے۔
ملک میں جب دہشت گردی پھیلی تھی یا پھر کوئی بھی حساس تہوار آتا تھا تو سب سے پہلے موٹر سائکل ہر پابندی لگائی جاتی تھی لیکن دہشت گردوں نے پھر بھی ستر ہزار شہریوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا، کہیں جلسہ ہوتا ہے تو انٹر نیٹ اور موبائل سروس بند کرکے اس پر پابندی لگائی جاتی ہے لیکن پھر بھی ملک کے اندر سے سیاسی بے چینی ختم نہیں ہوئی ہے اور لاہور کے مشہور تہوار بسنت پر پابندی لگائی گئی لیکن پتنگ بازی کے دوران استعمال ہونے والے قاتل دھاگے کو ختم نہیں کر سکے۔ اسی طرح ہم نے اپنے بچپن میں دیکھا ہے کہ شہر سے تانگوں کو ختم کیا گیا تھا کیونکہ یہ سڑکوں پر گندگی پھیلاتے تھے جبکہ اس پابندی کے نتیجہ میں آج ہم رکشوں اور موٹر سائیکلوں کا زہر نگل رہے ہیں ۔ اصل میں ہماری حکومتوں اور اداروں کے پاس کوئی حل نہیں ہوتا ہے اس لئے یہ پابندیاں لگا کر لوگوں کو خاموش کروانے میں لگ جاتے ہیں حالانکہ ماڈرن علوم ہمیں بتاتے ہیں کہ جب بھی کسی مسئلہ کا حل ڈھوڈنا مقصود ہو تو سب سے پہلے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک پیج پر لایا جائے اور پھر ہر ایک کو ٹاسک سونپے جائیں جبکہ ہمارے محکمے سب سے بڑے اسٹیک ہولڈرز یعنی عوام کو شامل ہی نہیں کرتے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جب تک لوگوں کو کسی بھی کمپین میں شامل نہ کیا جائے تب تک مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کئے جا سکتے ہیں۔
حکومتیں نومبر کے مہینے میں مارکیٹوں کے اوقات محدود کرتی ہیں جبکہ پورا سال اس پر کسی کی نظر نہیں ہوتی ہے اور اگر حکومت عوام کو اس کمپین میں شامل کرے اور تعلیمی اداروں کی سطح پر اور محلوں کی سطح پر لوگوں کو شعور دیں کہ رات آٹھ بجے کے بعد بازاروں میں نہ جایا کریں اور سر شام اپنی سرگرمیوں کو محدود کردیں تو یقیناً بہت سے لوگ رضاکارانہ طور پر اس میں شامل ہو کر تاجروں کو مجبور کردیں گے کہ رات گئے تک دکانوں کو کھولنے کا کوئی فائیدہ نہیں ہے۔ اس کے علاؤہ اگر چینی ماہرین کی بات مان کر زراعت اور آئی ٹی پر انحصار بڑھا دیا جائے تو یہ دونوں شعبے آلودگی کی شدت کو کم کرنے میں مددگار ہونگے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پابندیاں مسلط کرنے کی بجائے منصوبہ بندی کرلی جائے تو سب کے لئے اچھا ہو گا ورنہ سموگ کے بعد پھر کوئی نئی آفت آ جائے گی اور ہم مزید پابندیاں لگانے پر مجبور ہوں گے کیونکہ ہم مسائل کا حل نہیں ڈھونڈتے بلکہ پابندیاں ڈھونڈتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں