ویویک راما سوامی

ایلون مسک اور ویویک راما سوامی کی نئی وزارت اور خدشات

ایلون مسک اور ویویک راما سوامی کی نئی وزارت اور خدشات
کالم نگار: آفاق فاروقی
‎ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں افریقی نژاد امریکی بلینرز ایلون مسک اور ویویک راماسوامی کو ایک نئے ” ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشینسی” (DOGE) کی سربراہی کے لیے منتخب کیا ہے۔ یہ وزارت، جو اب تک رسمی طور پر قائم نہیں کی گئی اور کانگریس کی منظوری کے بغیر رسمی حیثیت اختیار نہیں کرے گی، بنیادی طور پر سرکاری اخراجات میں کمی، بیوروکریسی کو ختم کرنے، اور وفاقی ایجنسیوں کو دوبارہ ترتیب دینے پر مرکوز ہوگی۔ ٹرمپ نے اس اقدام کو “امریکہ کو بچانے” کی تحریک کے لیے اہم قرار دیا ہے۔
‎ڈونلڈ ٹرمپ نے عندیہ دیا ہے کہ یہ ادارہ حکومت کی حدود سے باہر کام کرے گا اور اس میں شامل دونوں افراد وفاقی حکومت کو ’بڑے پیمانے پر اداراجاتی اصلاحات‘ کے لیے تجاویز اور رہنمائی فراہم کریں گے، جب کہ حکومت کے لیے وہ کاروباری نقطہ نظر پیدا کرے گا جو پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔
‎ٹرمپ نے ایک بیان میں کہا کہ ایلون مسک اور راماسوامی ’بیوروکریسی کی اجارہ داری ختم کرنے، اضافی قواعد و ضوابط کو کم کرنے، فضول اخراجات میں کمی اور وفاقی ایجنسیوں کی ساخت کی از سر نوتشکیل کریں گے۔‘
‎ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ نیا محکمہ ری پبلکن پارٹی کے خوابوں کو پورا کرے گا اور ’حکومت سے باہر رہتے ہوئے رہنمائی فراہم کرے گا‘۔
‎انہوں نے کہا کہ حکومت میں ایلون مسک اور راما سوامی کے کردار غیر رسمی ہوں گے جس کے لیے سینیٹ کی منظوری کی ضرورت نہیں ہوگی جس سے ایلون مسک ٹیسلا، ایکس اور اسپیس ایکس کی سربراہی کر سکیں گے جب کہ راما سوامی بھی پروائیٹ سیکٹر کے لیے کام کرسکیں گے۔
ایلون مسک اور ویویک راما سوامی کی نئی وزارت
‎یاد رہے کہ ایلون مسک نے ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے لیے 119 ارب ڈالر خرچ کیے تھے جس پر ڈونلڈ ٹرمپ نے انھیں اپنی کابینہ میں اہم عہدہ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ مسک گذشتہ چند ہفتوں سے صدارتی انتخاب پر اثرانداز ہونے والی ریاستوں میں لوگوں کو ووٹ دینے کے لیے گھروں سے باہر نکالنے کی کوشش کر رہے تھے اور اس دوران انھوں نے ہر روز 10 لاکھ ڈالر بھی تقسیم کیے۔
‎الیکشن کے روز جہاں ٹیسلا کے ایک شیئر کی قیمت 250 ڈالر تھی وہاں ٹرمپ کی جیت کے بعد یہ قیمت 280 ڈالر سے بھی تجاوز کر گئی تھی۔ اس معاملے پر انھیں قانونی مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑا تاہم ریاست میں ایک جج سے انھیں ایسا کرنے کی اجازت مل گئی۔
‎ایلون مسک، جو پہلے ہی قدامت پسند سیاست میں بڑھتا ہوا اثر رکھتے ہیں، ٹرمپ کے قریبی اتحادی بن چکے ہیں۔ وہ اکثر سرکاری معاملات میں کارکردگی کی بہتری کے لیے خیالات پیش کرتے ہیں، اور یہ نیا کردار ان کے نظریات کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش ہے۔ مسک، جو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹویٹر) کے مالک ہیں، پر انتہا پسندی کو ہوا دینے،خاص طور پر قدامت پسند نظریات کی ترویج کے حوالے سے الزام لگایا گیا ہے۔
‎ایلون مسک 28 جون 1971 کو پریٹوریا، سائوتھ افریقہ میں پیدا ہوئے، اٹھارہ سال کی عمر میں وہ اپنی کینیڈین نیشنل والدہ کے ساتھ کینیڈا چلے گئے۔ مسک نے کینیڈا کی کوئینز یونیورسٹی سے میٹرک کیا، پھر یونیورسٹی اور پینسلوانیا سے گریجوایشن کی۔ 1995 میں وہ کیلی فورنیا منتقل ہوگئے اور اسٹینفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لیا لیکن پڑھائی مکمل نہ کی۔ مسک نے 2000 میں پہلی شادی جسٹن ولسن سے کی اور 2008 میں ان کے درمیان طلاق ہوگئی، پھر انھوں 2010 میں طللہ ریلی سے شادی کی 2012 میں دونوں کے درمیان طلاق ہوئی، دوبارہ دونوں نے 2013 میں شادی کی اور 2016 میں پھر طلاق ہوگئی۔ 2018 سے 2021 تک وہ اپنی پارٹنر گرمز کے ساتھ رہے، ایلون مسک کے 12 بچے ہیں۔
ایلون مسک اور ویویک راما سوامی کی نئی وزارت

‎ویویک راما سوامی ، جو امریکی سیاست میں ایک نمایاں شخصیت کے طور پر ابھرے ہیں، ریپبلکن صدارتی پرائمری لڑ کر ہار چکے ہیں اور وہ اپنی انتخابی مہم کے دوران کئی تنازعات میں ملوث رہے ہیں، جن میںُ ان کے بعض سخت گیر نظریات شامل ہیں:
‎1. امیگریشن پر سخت مؤقف: راماسوامی نے H-1B ویزا سسٹم کو “غلامی کی مانند” قرار دیا اور میرٹ کی بنیاد پر امیگریشن کی وکالت کی۔ لیکن ان کے ناقدین کہتے ہیں کہ وہ خود اسی ویزا سسٹم کے تحت امریکہ میں مقیم ہوئے تھے، جو ان کے بیان کردہ اصولوں کے برعکس ہے۔
‎2. روبوکالز مقدمہ: ان پر انتخابی مہم کے دوران لوگوں کی اجازت کے بغیر خودکار کالز کرنے کا الزام ہے۔ ایک مقدمے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان کی مہم نے یہ کالز بڑے پیمانے پر کیں، جس سے امریکی قوانین کی خلاف ورزی ہوئی۔
‎3. ریپلیسمنٹ تھیوری: انہوں نے ایک مباحثے کے دوران متنازعہ “گریٹ ریپلیسمنٹ تھیوری” کا حوالہ دیا، جو سفید فام بالادستی سے منسلک ہے۔ یہ نظریہ نسلی بنیادوں پر تشدد کو بڑھاوا دینے کا باعث بنتا ہے، اور اسے امریکی اور یورپی انتہا پسندوں نے کئی مواقع پر اپنایا ہے۔
‎راماسوامی، ایک بایوٹیک انٹرپرینیور اور سابق ریپبلکن صدارتی امیدوار ہیں، اپنے متنازعہ خیالات ، خاص طور پر “اینٹی-ویک” اور قدامت پسند معاشی ایجنڈے کی وجہ سے جانے جاتے ہیں ۔ دونوں کو اس منصب کے لیے ان کی کاروباری مہارت اور روایتی سرکاری ڈھانچے سے ہٹ کر کام کرنے کی صلاحیت کے باعث منتخب کیا گیا ہے۔
‎ویویک راما سوامی 9اگست 1985 میں اوہائیو امریکہ میں پیدا ہوئے، انھوں نے (Harvard University) اور (Yale University) سے تعیم حاصل کی۔ 2015 میں ان کی شادی اپوروا تواری سے ہوئی جس سے ان کے دو بچے ہیں۔
‎مبصرین کی رایے کے مطابق ان دونوں کی تقرری سیاسی اور کاروباری دنیا کے امتزاج کو ظاہر کرتی ہے، جو مستقبل میں مزید تنازعات کو جنم دے سکتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں