ستھرا پنجاب : شاہد محمود کا کالم خوشآمد
گزشتہ روز ایم این اے رانا مبشر اقبال نے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے حلقہ میں سیوریج اور پختہ سڑک کا افتتاح کیا۔ سیوریج کا یہ منصوبہ فیروز پور روڈ پر واقع انڈسٹریل زون انعم روڈ پایہ تکمیل کو پہنچا تھا۔ انعم روڈ اس علاقے کا بڑا انڈسٹریل ہب ہے جہاں پر کئی فیکٹریاں موجود ہیں جن پر اٹھارہ ہزار سے زیادہ ورکر کام کرتے ہیں ۔اس کے علاؤہ بھی اسی حلقہ میں کلمکار روڈ پر بھی سیوریج کا کام تکمیل کے مراحل میں ہے جبکہ نشتر کالونی میں بھی سیوریج کی لائن بچھاکر علاقے کا دیرینہ مسئلہ حل کردیا گیا ہے۔
یہ علاقے گندگی اور سیوریج کے پانی سے اٹے رہتے تھے اور عام حالات میں بھی ان علاقوں سے گزرنا مشکل ہوتا تھا جبکہ بارش کے دنوں میں تو یہ علاقہ غیر بن جاتے تھے ۔ مریم نواز نے بطور وزیر اعلیٰ جن منصوبوں پر کام شروع کیا ہے وہ واقعی قابل تحسین ہیں اور ان کے اندر ایک سمجھدار سیاسی ایڈمنسٹریٹر کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ ہم اس سے پہلے دیکھ چکے ہیں کہ زیادہ تر سیاسی رہنما تعمیری ڈھانچے پر ہی کام کرتے رہے ہیں اور اکثر لوگوں کاحقیقی معاشرتی تعمیر پر زیادہ فوکس نہیں تھا لیکن مریم نواز نے بطور وزیر اعلیٰ جو سات آٹھ ماہ گزارے ہیں وہ واقعی قابل تعریف ہیں اور کوئی دن ایسا نہیں ہوتا جب پنجاب میں کسی نئے پراجیکٹ پر کام نہ ہو رہا ہو اور ان منصوبوں کے اندر فلاحی ریاست کی سوچ جھلکتی ہے۔ مریم نواز کے منصوبوں میں جہاں معاشرتی بڑھوتری کی کوشش نظر آتی ہے تو وہیں پر کم آمدنی والے طبقوں کو معاشی طور پر مضبوط کرنے کے اقدامات بھی واضح دکھائی دیتے ہیں۔
کسان کارڈ، سستی کھاد، ٹریکٹروں کی تقسیم اور سولر سسٹم کو پروموٹ کرنے کے پیچھے سرسبز پنجاب صاف دکھائی دیتا ہے جس سے صوبے کی خوشحالی کا پیغام ملتا ہے۔ اسی طرح ہونہار نوجوان کے تحت طلباء کے لئے وظائف اور لیپ ٹاپ کی پالیسی سے ناصرف غریب طلبا کی تعلیم کا خواب پورا ہوتا ہے ہے بلکہ ان کے لئے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوسکیں گے۔ اسی طرح سے ہسپتالوں میں مفت ادویات فراہم کرنے کی پالیسی بھی قابل ستائش ہے اور پھر ہمارے شہروں میں بڑھتے ہوئے صحت کے مسائل اور آئے روز کی پھیلتی وباؤں کے پیچھے گندگی اور صفائی کے مسائل کا بڑا کردار ہے جس کے حوالے سے گزشتہ روز وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے ستھرا پنجاب کے نام سے ایک بڑا منصوبہ شروع کیا ہے جس میں شہروں کے ساتھ ساتھ دیہاتوں کے اندر بھی حکومتی سطح پر صفائی کے معاملات کی سرپرستی کا پلان بنایا گیا ہے اور اس مقصد کے لئے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کا مسٹر پلان ڈیزائن کیا گیا ہے اور صوبہ بھر میں صفائی سے متعلق 80000 سے زیادہ آلات اور 21000 جدید مشینیں فراہم کی گئی ہیں۔
اس منصوبہ کے تحت اگلے تین ماہ میں پنجاب بھر سے زیرو ویسٹ کا ہدف طے کیا گیا ہے اور اس طرح پہلی بار بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ صوبے کے دیہاتوں اور ٹاونوں میں بھی صفائی کی سروس شروع کی جائے گی اور ہر گھر سے کوڑا اکٹھا کرنے اور اسے تلف کرنے تک کو مختلف مراحل میں تقسیم کیا گیا ہے اور اسی طرح سے بڑی سوسائٹیوں کے ساتھ ساتھ تنگ گلیوں اور بازاروں تک پہنچنے کے لئے بھی چھوٹی گاڑیاں اور لوڈر رکشے فراہم کئے گئے ہیں جس سے کوڑے کو مکمل طور پر تلف کیا جاسکے گا۔ لاہور ویسٹ مینیجمینٹ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے انھیں پچیس ہزار رکشے اور گاڑیاں فراہم کی گئی ہیں جن کے ذریعہ سے ہر گلی اور گھر سے کوڑا اٹھایا جا سکے گا اور یہی نہیں بلکہ جو پرائیویٹ کمپنیاں اور ذاتی حیثیت میں افراد مختلف محلوں اور علاقوں سے کوڑا اکٹھا کرتے ہیں ان سب کو بھی حکومتی نیٹ ورک کا حصہ بنایا جائے گا جس کے لئے پالیسی بنائی جا چکی ہے اور اس طرح جو کچرا گھروں سے اکٹھا کیا جائے گا اس کے لئے ہر یونین کونسل کی سطح پر پرائمری ویسٹ سنٹر بنائے گئے ہیں جہاں سے یہ کچرا بڑے ڈمپروں کی مدد سے اکٹھا کرکے اسے سیکنڈری اور فائنل کوڑا مراکز تک پہنچایا جائے گا جس کے لئے مختلف پرائیویٹ کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کئے گئے ہیں جو اپنی ہیوی مشینری کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر کچرا اکٹھا کرکے اسے شہروں کے مرکزی ویسٹ مراکز تک پہنچائیں گے۔
ایل ڈبلیو ایم سی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے پرائیویٹ طور پر گھروں سے کوڑا اٹھانے والے افراد کو تنگ کیا جاتا تھا اور انہیں کوڑا مراکز میں کچرا ڈالنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی اور اکثر ایسے افراد رشوت دے کر اس کوڑے کو تلف کرنے پر مجبور ہوتے تھے لیکن ستھرا پنجاب کے منصوبے کے تحت ایسے تمام افراد جو انفرادی طور پر یا کسی چھوٹی موٹی کمپنی کی سطح پر گھروں سے کوڑا اٹھاتے تھے اب ان کی حوصلہ افزائی کی جائے گی اور انھیں مناسب انسینٹو دینے کا پلان بنایا گیا ہے۔ اس وقت لاہور میں روزانہ ساٹھ ہزار ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے اور اس کچرے کا تیس فیصد بھی ٹھکانے نہیں لگایا جا تا تھا لیکن نئے ستھرا پنجاب کے منصوبے کے تحت اب کسی بھی جگہ کوڑے کی نشان دہی ہونے کے چند گھنٹوں کے اندر اسے اٹھانے کا ٹاسک مقرر کیا گیا ہے اور اگر ہدایات پر عمل نہیں ہوا تو پھر متعلقہ عملہ کا سخت احتساب ہو گا۔
کوڑا اٹھانے اور تلف کرنے کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر سپرے مشینیں اور روڈ واشر مشینیں بھی اس منصوبے کا حصہ ہونگی جن کا کام روزانہ کی بنیادوں پر شہروں کی مین شاہراؤں کو دھو کر صاف ستھرا کرنا ہو گا اور اس طرح سڑکوں کی صفائی سے بھی شہر کی خوبصورتی میں اضافہ ہو گا اور کچرے اٹھانے سے لے کر تلف کرنے تک کی صنعت کو فروغ ملے گا جس سے ناصرف اس سے متعلقہ مشینری کی انجینئرنگ پروان چڑھے گی بلکہ کچرے کے مفید استعمال کے جدید طریقے بھی اختیار ہو سکیں گے جس سے مزید نئی کمپنیاں اس حوالے سے رجسٹرڈ ہو سکیں گی جس کوڑے اور کچرے کی مینیجمنٹ میں جدت آئے گی اور ایک لاکھ سے زیادہ افراد کو روزگار بھی میسر آ سکے گا۔ پنجاب حکومت کا ویژن ہے کہ ستھرا پنجاب منصوبے میں جب حکومت اور پرائیویٹ سیکٹر مل کر کام کرے گا تو صوبے بھر میں صفائی کا معیار کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے برابر ہو سکے گا اور اس سے بڑے پیمانے پر بیماریوں سے چھٹکارا حاصل کرنے میں بھی مدد مل سکے گی کیونکہ پہلے ہی ملک میں ڈینگی، ملیریا سمیت کئی وائرس کی بیماریاں جنم لے چکی ہیں جن کا مسکن یہی گندگی کے ڈھیر ہیں اور جب گندگی صاف ہوگی تو اس سے بیماریوں میں بھی کمی واقع ہوگی جس سے ناصرف صحت مند معاشرہ جنم لے گا بلکہ ہر سال ادویات اور علاج پر اٹھنے والا قیمتی زرمبادلہ بھی بچایا جا سکے گا۔
ستھرا پنجاب کا منصوبہ شروع ہوتے ہیں ضلعی انتظامیہ اور صفائی کمپنی کے عملہ میں ایک دم سے حرکت پیدا ہو گئی ہے اور جگہ جگہ کھڑے کوڑا دان کو سبز رنگ کر کے ترتیب سے رکھا جا رہا ہے اور ساتھ ہی بڑی تعداد میں چھوٹی اور بڑی گاڑیاں شہر میں حرکت کرتی دکھائی دینے لگی ہیں اور کوڑا دانوں کے ارد گرد لگے کوڑے کے ڈھیر بھی ختم ہونے لگے ہیں اور اگر اس منصوبے پر اس کی روح کے مطابق عمل شروع ہو گیا تو یقین جانئیے پنجاب کے شہروں اور دیہاتوں میں کوڑا ڈھونڈے نہیں ملے گا جس سے ناصرف شہری ماحول بہتر ہو گا بلکہ لوگوں کی طبیعت اور کارکردگی پر بھی بڑا مثبت اثر پڑے گا۔ میں مریم نواز کے اکثر سوشل بڑھوتری کے منصوبوں کا قائل ہوں لیکن ان منصوبوں میں جو بڑی کمی نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ ان کے تمام پراجیکٹ بیوروکریسی کے قبضے میں ہوتے ہیں اور ان میں عوام کی شمولیت ڈھونڈے نہیں ملتی ہے اور بیوروکریسی کا سٹائل تو سب کو معلوم ہی ہے کہ زور زبر دستی سے کسی کام کو شروع تو کرلیتی ہے لیکن اس کی لمبے عرصے کی پلاننگ اور عملداری نہ ہونے کی وجہ سے بہت سارے منصوبے بیچ میں ہی اپنی موت مر جاتے ہیں۔
وزیر اعلیٰ کو چاہئیے کہ اپنے منصوبوں کے اندر عوامی آ گاہی کے پروگرام بھی شروع کریں اور سوشل میڈیا کے علاؤہ بھی گراؤنڈ پر پارٹی کارکنان کو متحرک کرکے گھر گھر اپنے کئے ہوئے کاموں اور ان کے ثمرات کی تبلیغ کریں کیونکہ ستھرا پنجاب جیسے بڑے منصوبے کے بارے میں ابھی تک عام آدمی کو کچھ پتہ نہیں ہے تو پھر وہ شکایت کا نظام اور ستھرا پنجاب ایپ کا استعمال کہاں سے ہو گا۔ اس منصوبے کے بارے میں نہ طلبا کو شامل کیا گیا اور نہ ہی پارٹی ورکروں کو اعتماد میں لیا گیااور اس سے بھی بڑی بدقسمتی ہے کہ سرکاری بیوروکریسی میں ایک بڑی تعداد تحریک انصاف کے لوگوں کی ہے جو ہر حکومتی منصوبے کو ناکام بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔