آئی جی پنجاب کے لئے۔ قسط اول
شاہد محمود کا کالم “خوشآمد”
جناب آئی جی پنجاب آپ کی پولیس پر بڑے الزامات ہیں اور شریف لوگ اس ادارے پر اعتماد نہیں کرتے ہیں اور جتنے بھی ادارہ جاتی سروے سامنے آتے ہیں ان میں پولیس کرپشن ، بد انتظامی اور انسانی حقوقِ کی خلاف ورزی پر ہمیشہ پہلے نمبر پر ہی رہی ہے۔ میں تو یہی سمجھتا رہا کہ پولیس مقدمات میں فیور دینے کے چکروں میں کچھ مٹھی گرم کر لیتی ہے لیکن چند دن پہلے میری نظروں سے ایک ایسا کیس گزرا ہے جس میں پولیس خود کرکچھ لوگوں کے ساتھ مل کر عام شہریوں کو بلیک میل کرکے ان لوگوں کو بیگار خانوں میں قید کرواتی ہے۔ ہم نے یہ تو سنا تھا کہ پولیس کے ٹاؤٹ ہوتے ہیں لیکن میں نے خود کوٹ لکھپت تھانے کی پولیس کو شکیل بھٹی نامی شخص کے سامنے سر جھکاتے اور اسے پروٹوکول دیتے دیکھا تھا۔
ہم کچھ علاقہ کے معززین کے ساتھ تھانے گئے تھے جہاں ہمارے ایک ہمسائے محمد اقبال کو کوٹ لکھپت پولیس نے چادراور چار دیواری کو پامال کرتے ہوئے گھر کے اندر گھس کر اغوا کیا تھا اور کئی گھنٹے حبس بے جا میں رکھا تھا۔ ہم جب تھانے گئے تو معلوم ہوا کہ ہمارے ہمسائے کو تفتیشی انچارج سب انسپکٹر رانا نعیم نے اغواء کروایا تھا جبکہ اقبال کے خلاف کوئی پولیس کیس نہیں تھا اور نہ ہی کسی قسم کی شکایت ہی تھی۔ مجھے بتایا گیا کہ شکیل بھٹی نامی شخص نے سب انسپکٹر رانا نعیم کے ساتھ مل کر شریف شہری کو اغواء کیا تھا۔
ہم رات دیر تک اقبال کو ڈھونڈتے ہوئے تھانے پہنچے تھے اور ہمیں بتایا گیا کہ شکیل بھٹی کے پولیس کے ساتھ بڑے گہرے مراسم ہیں اور اکثر پولیس کے اہلکار شکیل بھٹی کے پاس کھانے کھاتے اور قہقہے لگاتے پائے جاتے تھے اور میرے لئے یہ بات مزید پریشان کن واقع ہوئی جب مجھے بتایا گیا کہ شکیل بھٹی پچھلے چند سالوں میں درجنوں پرچے درج کروا چکا ہے لیکن جانے ایک ہی شخص کے نام سے جب اتنی زیادہ ایف آئی آر درج ہوتی ہیں تو پولیس کے سسٹم میں کوئی الارم کیوں نہیں بجتا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں پرچے کروانے والے شخص کی اپنی تفتیش بھی ہونی چاہئیے کہ کہیں ان تمام پرچوں میں بدنیتی تو شامل نہیں ہے اور آئی جی پنجاب کے لئے شکیل بھٹی کا کردار یقیناً ایک چیلنج ہونا چاہئیے ۔ مذکورہ معاملہ میں بھی ایک ایسی ہی ایف آئی آر میں اقبال کو اٹھایا گیا تھا جس میں اس کے بھائی کے خلاف شکیل بھٹی کی مدعیت میں پرچہ درج ہوا تھا۔
شکیل بھٹی بظاہر ایک مشہور کمپنی کے ڈسٹریبیوشن پر مینیجر کی جاب کرتا ہے لیکن حقیقت میں اس شخص کا کام پولیس کو مینیج کرنا اور مختلف گاہکوں اور ملازمین پر پرچے درج کروانا تھا۔ شکیل بھٹی کے نام سے پولیس ریکارڈ میں کل اڑتیس ایف آئی آر درج ہیں جبکہ کمپیوٹرائزڈ سسٹم آنے سے پہلے کے مینول پرچے الگ سے ہیں جن کی تعداد بھی درجنوں میں ہو سکتی ہے اور ایک ہی ایف آئی آر میں کہیں مدعی اور کہیں گواہ کے طور پر شکیل بھٹی کا نام آتا ہے ۔ ان پرچوں میں شکیل بھٹی مختلف کمپنیوں کی طرف سے بطور مدعی پرچے درج کرواتا رہا ہے اور ہر جگہ خود کو اس کمپنی کا مینیجر بیان کرتا ہے یعنی شکیل بھٹی پرچے درج کروانے کے لئے بطور ایجنٹ کام کرتا ہے اور غالباً کوئی بھی کمپنی اسے ملازمین پر پرچے کروانے کے لئے استعمال کر سکتی ہے دوسرے لفظوں لوگوں پر اجرت لے کر پرچے درج کروانا شکیل بھٹی کا اصل دھندہ ہے اور اس کام میں پولیس اس کی دست راست بنی ہوئی ہے۔ شکیل بھٹی کے زیادہ تر پرچے کوٹ لکھپت تھانے میں درج کئے گئے ہیں اور شاید اسی لئے شکیل بھٹی اس تھانے کے عملے کی آنکھوں کا تارا بنا ہوا تھا۔
مذکورہ مقدمہ میں بھی دفعہ 408 کے تحت پہلے چھ لوگوں پر پرچہ درج کروایا گیا تھا اور یہ سب لوگ ڈسٹری بیوشن پر بطور سیلز مین کام کرتے تھے جن میں کسی بھی شخص کی تنخواہ تیس پینتیس ہزار روپے سے زیادہ نہیں تھی اور ایف آئی آر میں ان پر اڑھائی کروڑ روپے کے سٹاک کی چوری اور خورد برد کا الزام لگایا گیا تھا اور یہاں تک کہ ایک سیلز مین پر ایک کروڑ تیس لاکھ روپے کی چوری کا الزام تھا اور ایف آئی آر کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں میں یہ خورد برد ہوئی تھی لیکن اس سال جنوری میں اچانک سے مینیجمینٹ کو معلوم پڑا کہ ان کو اڑھائی کروڑ روپے کا نقصان ہوچکاہے جو جانے کیوں پانچ سال کی آڈٹ رپورٹس اور گودام کے سٹاک آڈٹ میں سامنے کیوں نہیں آسکا تھا اور اس کے نتیجہ میں چھ افراد پر کوٹ لکھپت تھانے میں پرچہ درج ہوا اور اندرون خانہ جھوٹی تفتیش بھی ہوتی رہی اور پولیس کی مسلوں میں باقاعدگی کے ساتھ کاروائی درج ہوتی رہی کہ مقدمہ میں نامزد ملزمان کے گھروں میں پولیس نے کئی چھاپے مارے لیکن ملزمان گرفتار نہیں ہوسکے کیونکہ وہ لوگ گھروں کو تالے لگا کر مفرور ہو چکے تھے۔
مجھے ان مسلوں کو پڑھنے کا موقع ملا ہے اور وہ ساری کی ساری ایک ہی مسل کی فوٹو کاپیاں ہیں جن پر تاریخ اور نام بدل دئیے گئے تھےجبکہ دوسری طرف وہ تمام ملزمان بطور سیلز مین اسی ڈسٹریبیوشن آفس میں کام کر رہے تھے اور پولیس کا سب انسپکٹر رانا نعیم اور اس کا جونئیر اے ایس آئی اسلم شکیل بھٹی کے ساتھ بیٹھ کر تمام سیلز مینوں کو دھمکیاں بھی دیتے رہے اور دوسری طرف کاروائی میں ان ملزمان کو مفرور ثابت کرنے کے لئے ان کے گھروں میں چھاپے بھی مارتے رہے اور عجیب داستان ہے کہ ایک سال کی پولیس تفتیش میں مفرور قرار پانے والے تین لوگ آج بھی اپنے ایمپلائر کے پاس حاضریاں لگوا کر تنخواہیں وصول کررہے ہیں لیکن اسی مدعی اور پولیس کی ساز باز سے وہ لوگ مفرور قرار پاکر عملی طور پر شکیل بھٹی کے ہاتھوں غلام بننے پر مجبور ہیں اور پھر اسی کمپنی کا ایک اور سیلز مین جو کہ اقبال کا بھائی ہے مقدمہ کے اندراج کے سات ماہ بعد شکیل بھٹی کی ایک سپلیمنٹری درخواست کے ذریعہ مقدمہ میں شامل کیا گیا تھا ۔
ملزم کے مطابق وہ تیرہ سال سے اسی ایمپلائز کے پاس نوکری کر رہا تھا جب اس نے نوکری چھوڑنے کے لئے ڈسٹریبیوشن مینیجمینٹ کو زبانی نوٹس دیا تھا اور مینیجمینٹ نہیں چاہتی تھی کہ وہ شخص جاب چھوڑ کر چلا جائے چنانچہ اس کا نام بھی شکیل بھٹی کے ذریعہ پرچہ میں شامل کرکے شکیل بھٹی نے اسے مجبور کیا کہ وہ جاب نہ چھوڑے ورنہ اس کے لئے ایک لمبی سزا ہوگی اور اس کو دھمکیاں دی گئیں کہ میں تم پر پولیس کے ذریعہ ایسا تشدد کروں گا کہ تمہاری عقل ٹھکانے لگ جائے گی لیکن اقبال کے بھائی نے کام جاری رکھنے سے انکار کردیا تو پولیس اس کے گھر چھاپے مارنے لگی جس پر اقبال کا بھائی روپوش ہو گیا اور پولیس نے اقبال کو گھر سے اغوا کرکے دھمکیاں دینا شروع کردی تھیں۔
اس سارے معاملہ میں مجھے بڑے پیمانے پر پولیس کی بدنیتی دکھائی دیتی ہے اور دوسری طرف ہیومین رائٹس کی سنجیدہ خلاف ورزیاں نظر آئی ہیں جس میں شکیل بھٹی نے کئی لوگوں کو پولیس کے ذریعہ غلام بنا رکھا تھا۔ میں نے اس سارے کیس پر کام شروع کیا تو حیرانگی مزید بڑھ گئی جب مجھے اسی ڈسٹریبیوشن پر کام کرنے والے کئی افراد نے بتایا کہ اس سے پہلے بھی اسی طرح ملازمین پر درجن بھر پرچے درج ہوچکے تھے جس کے ذریعہ ملازمین کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ ان کے پاس مفروری میں رہ کر پوسٹ ڈیٹڈ چیک شکیل بھٹی کے حوالے کرکے سالہا سال معمولی تنخواہ پر کام کرتے رہیں اور یا پھر بڑی رقم ادا کرکے قید سے جان چھڑالیں جس کے لئے لوگوں نے اپنے گھر تک بیچ ڈالے تھے۔
مقدمہ میں نامزد سیلز مینوں نے اپنے تحریری بیان میں کہا ہے کہ انھیں شکیل بھٹی یہ کہہ کر پولیس کے پاس لے کر گیا تھا تاکہ وہ گواہی دے سکیں کہ کمپنی کا نقصان ہوا ہے جس کی بناء پر انشورنس سے کلیم وصول کرنے ہیں لیکن اصل میں انھیں دھوکے سے مقدمہ میں پھنسایا گیا ہے۔ اس سارے کیس میں پولیس کے انویسٹی گیشن افسران کا کردار بڑا مشکوک ہے جس پر اگلے کالم میں بات ہوگی