پروجیکٹ 2025 اور بندوق

پروجیکٹ 2025 اور بندوق برداروں کے ہاتھ: مصطفےٰ صفدر بیگ کا کالم

پروجیکٹ 2025 اور بندوق برداروں کے ہاتھ: مصطفےٰ صفدر بیگ کا کالم
تصور کیجیے کہ کسی ویران کتب خانے میں پرانی کتابیں بکھری پڑی ہیں، کرم خوردہ، گرد سے اٹی ہوئی، ان کے زرد صفحات وقت کی بے رحمی کی گواہی دے رہے ہیں۔ اور ایک قلم ہے، جو کسی ہاتھ میں نہیں، ہوا میں معلق ہے، بس یونہی بے لگام طاقت کی خواہش میں بھٹک رہا ہے۔ اس قلم سے ایک دستاویز لکھی گئی ہے، پروجیکٹ 2025۔
یہ کوئی عام منصوبہ نہیں، یہ ایک ایسا خواب ہے جو حقیقت بن کر دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے کو بے تاب ہے۔ یا شاید اسے خواب کہنا بھی زیادتی ہو، کیونکہ اس کے اوراق میں امید نہیں، خوف کا سایہ ہے، دہشت کا شائبہ ہے۔ امریکہ کو سب سے بڑی طاقت بنانے کے نام پر یہ منصوبہ ایسی زنجیریں ڈھال رہا ہے، جو دنیا کی آزاد سانسوں کو جکڑنے کے درپے ہیں۔
کہانی موڑ مڑتی ہے، ہوا میں معلق قلم صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ہاتھوں میں آجاتا ہے، اور قدامت پسندوں کی سوچ سے تراشا گیا یہ منصوبہ بیک جنبش قلم منظور کرلیا جاتا ہے۔
بظاہر مقصد؟ “امریکہ کی عظمت کی بحالی”۔ مگر یہ بحالی کیسی ہوگی اور کیسے ہوگی؟ کیا چین پر تجارتی دیواریں کھڑی کرکے؟ کیا مہاجرین کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکا کر؟ کیا عالمی معاہدوں کو جوتے کی نوک پر رکھ کر؟ یا پھر فلسطین کے مظلوموں کے حق میں اٹھنے والی ہر آواز کو کچل کر؟
یہ سب ایک ہی کہانی کے مختلف سین ہیں، اور اس کا ہدایتکار ہے پروجیکٹ 2025۔
صدر ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ یہ “امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے” کی راہ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے: کس قیمت پر؟
کیا اس کی قیمت 21 لاکھ سرکاری ملازمین کی برطرفی ہے؟ کیا وہ امریکی کلرک، جس نے زندگی کے بیس سال ایک دفتر میں کھپا دیے، بس اس لیے نکال دیا جائے کہ وہ کسی سیاسی گروہ کا ہم نوا نہیں؟ کیا یہ ہے “عظمت کی بحالی” کا اصل چہرہ؟ یہ کوئی عام فیصلہ نہیں، بلکہ ایسا بم ہے جو امریکی بیوروکریسی کے ایوانوں کو ہلا کر رکھ دے گا۔
یہ تو آغاز ہے، اصل پکچر تو ابھی باقی ہے۔ محکمۂ تعلیم کے خاتمے کی بات ہو رہی ہے، صحت کی سہولتوں پر تالے ڈالنے کی دھمکی دی جا رہی ہے۔ کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ وہ امریکہ، جو ترقی اور انسانی حقوق کا دعویدار ہے، وہاں ایک ماں اپنے بیمار بیٹے کو لے کر دردر کی ٹھوکریں کھائے گی؟ وہ ہسپتال جہاں کبھی اس کی امید کا چراغ جلتا تھا،
اب پروجیکٹ 2025 کی نذر ہو چکا ہوگا۔ بیٹا ٹھنڈی آنکھوں سے ماں کو دیکھے گا اور لبوں پر الوداعی مسکراہٹ سجاکر پوچھے گا، “ماما! کیا میں مر جاؤں گا؟
جواب کسی کے پاس نہیں، سوائے پروجیکٹ 2025 کے، جو خاموشی سے مسکرا رہا ہوگا۔
یہ منصوبہ صرف معیشت اور روزگار تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک مکمل سماجی تبدیلی کی داغ بیل ڈالنے کا خواہاں ہے۔
عورت کے حقوق، اسقاطِ حمل کی آزادی، اور صنفی شناخت پر قدغن لگانے کی بات ہو رہی ہے۔ امریکی عدالتوں کے دروازے عورتوں کے لیے بند کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔
ٹیکساس کی گلیوں میں ایک سہمی ہوئی لڑکی، جو ظلم کا نشانہ بنی، اب زندگی اور موت کے بیچ کھڑی ہے۔ اسے کسی محفوظ پناہ گاہ کی تلاش ہے، مگر نئی پالیسیوں نے اس کے قدموں تلے زمین کھینچ لی ہے۔
یہ ہے “انسان دوست امریکہ” کا وہ نیا چہرہ، جو پروجیکٹ 2025 نے تراشا ہے۔
لیکن کیا یہ صرف امریکہ کا مسئلہ ہے؟ نہیں! اس منصوبے کی بازگشت پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے۔ کیا پاکستان بھی اس کی لپیٹ میں آئے گا؟ کیا ہمیں بھی حکم دیا جائے گا: “امریکہ کے ساتھ چلو، یا پھر چین کے ساتھ دفن ہو جاؤ”؟
یہ کوئی آپشن نہیں، بلکہ ایک کھلی دھمکی ہے۔ پاکستان کا المیہ یہی ہے کہ ہم نے کبھی اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کی کوشش نہیں کی۔ ہم کبھی ایک طرف جھکتے ہیں، کبھی دوسری طرف لُڑھک جاتے ہیں۔
ہم نے ہمیشہ دوسروں کے سائے میں پناہ ڈھونڈی، اور جب سائے چھٹتے ہیں، تو ہمیں اپنی کمزوریوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ ہم نے کبھی اپنا کیمپ خود نہیں بنایا۔ ہم ہمیشہ دوسروں کی چھاؤں تلے کھڑے رہے۔ اب جب پرائی چھاؤں ہٹ رہی ہے تو ہم خود کو دھوپ میں جلتا محسوس کر رہے ہیں۔
پروجیکٹ 2025 کی حقیقت کیا ہے؟ کیا یہ ڈکٹیٹرشپ کا نیا چہرہ ہے؟ کیا امریکہ میں جمہوریت کا سورج غروب ہونے کو ہے؟ اگر ایسا نہیں بھی ہے، تو بھی ماہرین کہتے ہیں:”یہ منصوبہ ٹرمپ کو ڈکٹیٹر بنانے کا پہلا زینہ ہے۔
ظاہر ہے جب میڈیا کو خاموش کر دیا جائے، جب عدالتوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا جائے، جب عوام کو خوف کے اندھیروں میں دھکیل دیا جائے، تو پھر وہی ہوتا ہے جو ماضی میں ہٹلر کے جرمنی میں ہوا تھا۔
ہٹلر نے “معاشی ترقی” کے نام پر جمہوریت کو قبر میں اتارا تھا۔ ٹرمپ کا نعرہ بھی ملتا جلتا ہے۔ تو کیا تاریخ خود کو دہرانے جا رہی ہے؟ اور اب یہ سب کچھ امریکہ میں ہونے جارہا ہے؟
اگر آپ کو یہ سب سن کر خوف آ رہا ہے تو گھبرائیں مت۔ کیونکہ ہر اندھیرے میں ایک چراغ ضرور جل رہا ہوتا ہے۔ نیویارک کی سڑکوں پر طالبات ہاتھ میں بینر اٹھائے کھڑی ہیں “پروجیکٹ 2025 کو روکو!”۔
ٹیکساس کی نرسیں عدالتی دروازہ کھٹکھٹا رہی ہیں۔ پاکستان کے کھلیانوں میں درانتی تھامے دیہاتی کسان دانش کے موتی بکھیر رہا ہے “ہمیں کسی کی غلامی منظور نہیں، ہمیں کسی کے کیمپ میں نہیں جانا چاہیے”۔
یہ چھوٹی چھوٹی آوازیں ہیں، لیکن یاد رکھیے، جب قطرے ملتے ہیں تو دریا بنتے ہیں، اور جب دریا طوفان بنتے ہیں، تو تخت الٹ جاتے ہیں، تاج اچھل جاتے ہیں۔
سوال یہ نہیں کہ پروجیکٹ 2025 کامیاب ہوگا یا نہیں؟ سوال یہ ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ہم خاموش تماشائی بنیں گے، یا اس دیوار کا حصہ بنیں گے جو ظلم کی راہ میں کھڑی ہو؟
تاریخ گواہ ہے کہ ہر جابر کو زوال آتا ہے۔ تو وہ لوگ جو آمر کے قصیدے پڑھتے ہیں، وقت کے ساتھ مٹی میں دفن ہوجاتے ہیں۔
پروجیکٹ 2025 ایک خواب ہے، ایک خواب ناتمام، مگر انسانیت کی جاگتی آنکھیں اسے ڈراؤنا خواب بننے نہیں دیں گی۔ کیونکہ حقیقی طاقت ہیشہ عوام کے ہاتھ میں ہوتی ہے نہ کہ کسی پروجیکٹ کے بندوق برداروں کے ہاتھ میں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں