(تحریر :شاہد محمود )
دیر آئے درست آئے اور آخر کار وزیر اعلیٰ مریم نواز میو ہسپتال پہنچ ہی گئی اور وہاں جا کر انھوں نے مریضوں کے لواحقین سے بات چیت کی اور ایمرجنسی سمیت مختلف وارڈوں کا دورہ کیا جہاں انھیں کچھ بھی ٹھیک نہیں دکھائی دیا اور پھر انھوں نے میو ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹینڈنٹ کو فارغ کرکے ہسپتال میں مفت ادویات کی فراہمی کا حکم دے دیا۔ میو ہسپتال کی انتظامی حالت پچھلے کچھ عرصے میں بہت بدحال ہو چکی تھی اور ہم نے بارہا روزنامہ آفاق کے صفحات پر ان مسائل کی طرف توجہ دلائی ہے جس میں مریضوں کو ادویات ملتی ہے اور نہ ہی آپریشن کا سامان میسر آتا ہے اور یہاں تک کہ کبھی بے ہوشی کی گیس میسر آتی ہے اور نہ ہی ریڑھ کی ہڈی میں سن کرنے والی ایل پی نیڈل دستیاب ہوتی ہے جس کے کی وجہ سے آدھے سے زیادہ آپریشن مسلسل ملتوی ہورہے تھے لیکن ان مسائل کی کسی کو کوئی پرواہ نہیں تھی اور یہاں تک کہ کارڈیالوجی وارڈ کے پروفیسر نے ان مسائل کی بات آفیشل واٹس ایپ گروپ میں کی تو اسے اٹھا کر ساہیوال ٹرانسفر کردیا گیا تھا اور پھر ایک میڈیکل آفیسر نے میڈیا پر ہسپتال میں پیش آنے والے مسائل کی بات کی تو ہیلتھ سیکریٹریٹ سے اس کے وارڈ کے سربراہ کو فون کال آئی اور انھیں اپنے ڈاکٹروں کی زبان بند رکھنے کی ہدایت کی گئی اور عمل نہ کرنے پر رحیم یار خان تبادلہ کرنے کی دھمکی دی گئی۔ ہم نے روزنامہ آفاق کے صفحات پر کئی بار اس طرف توجہ دلانے کی کوشش کی کہ ایمرجنسی میں ادویات دستیاب نہیں ہیں اور نہ ہی جراثیم کش دوائی پائیوڈین ملتی ہے اور تو اور سرنج اور برنولہ تک مریضوں کو نہیں ملتا ہے اور یہ ساری باتیں وزیر صحت سمیت سیکرٹری صحت کو بھی فراہم کی جاتی رہی ہے لیکن بدقسمتی ہے کہ ان مسائل پر ہر کسی نے مٹی ڈالنے کی کوشش کی ہے اور پھر چند ماہ پہلے وائس چانسلر کنگ ایڈورڈ یونیورسٹی کی سرپرستی میں میو ہسپتال اور اس کے ذیلی ہسپتالوں کے ایم ایس صاحبان کی میٹنگ ہوئی تو وہاں بھی سب اچھا ہے کی رپورٹ دی گئی اور اس پر ہم نے روزنامہ آفاق میں خبر بھی شائع کی تھی کہ میو ہسپتال میں سب اچھا نہیں ہے لیکن پھر بھی کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی ہے اور چند دن پہلے یورالوجی وارڈ کی لیتھوٹرپسی مشین کی خراب ہونے کی خبر بھی شائع ہوئی جس میں وزیر اعلیٰ سے استدعا کی گئی تھی کہ میو ہسپتال کے معاملات پر خود نوٹس لیں اور آج مریم نواز نے میو ہسپتال کا دورہ کیا تو سارے مسائل چند منٹوں میں کھل کر سامنے آگئے اور یہاں تک کہ وزیر اعلیٰ کو خود کاروائی کرتے ہوئے میڈیکل سپرنٹینڈنٹ ڈاکٹر فیصل مسعود کو فارغ کرنا پڑا اور اس کے ساتھ ہی میو ہسپتال سے بد انتظامی اور نااہلی کا ایک باب بھی ختم ہو گیا۔وزیر اعلیٰ کی کاروائی کے بعد کئی سوال جنم لیتے ہیں اور سیکرٹری صحت سمیت ان کی پوری ٹیم پر نشان سوالیہ نشان اٹھتا ہے کہ انھیں یہ سارے مسائل نظر کیوں نہ آئے اور جب میڈیا چیخ چیخ کر ہسپتال کی خستہ حالی بیان کر رہا تھا تو سیکرٹری صحت اس پر خاموش کیوں تھے اور یہی نہیں بلکہ ہسپتال میں بد انتظامی کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو فون کر کے دباتے رہے ہیں تو پھر حقیقت تو یہی ہے کہ یہ سارے لوگ بھی اس بد انتظامی کا حصہ رہے ہیں تو پھر ان لوگوں کے خلاف کاروائی کیوں نہیں کی گئی ہے اور ایسی بیوروکریسی کا کیا فایدہ جو معاملات کو درست کرنے کی بجائے مزید خراب ہونے کا انتظار کرتی رہے اور آخر میں جا کر صوبے کے وزیر اعلیٰ کو کاروائی کرنا پڑے تو پھر اتنی بڑی فوج رکھنے کی کیا ضرورت ہے جبکہ اس سے پہلے بھی ساہیوال میں بچوں کی نرسری میں آگ بھڑکنے کے واقعہ میں بھی وزراء سمیت ساری بیوروکریسی انتظار کرتی رہی اور بعد میں وزیر اعلیٰ کو ساہیوال جاکر کاروائی کرنا پڑی تو پھر یہ سیکرٹری کے مزے لوٹنے والے افراد کس مرض کی دوا ہیں وزیر اعلیٰ کو ان معاملات کی طرف بھی دیکھنا ہو گا ورنہ بیورو کریسی کی باتوں طفل تسلیوں میں آنے والے حکمران اکثر مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ میں پروفیسر فیصل مسعود کو ذاتی طور پر جانتا ہوں وہ بذات خود ایک اچھے انسان ہیں اور ایک قابل سرجن بھی ہیں لیکن ان کے پاس انتظامی اہلیت موجود نہیں تھی تو پھر واقعی مریم نواز کا سوال درست ہے کہ انھیں کس نے میڈیکل سپرنٹینڈنٹ تعینات کیا تھا تو پھر احتساب اس تعینات کرنے والی اٹھارٹی کا بھی ہونا چاہئیے کیونکہ ایک ہی وقت میں ایک ڈاکٹر کو وارڈ کا سربراہ تعینات کیا گیا ہے اور ساتھ ہی میڈیکل سپرنٹینڈنٹ کا اہم عہدہ بھی تھمادیا گیا ہے اور پھر پروفیسر فیصل مسعود خود پرائیویٹ پریکٹس بھی کرتے ہیں تو ایک ایسا شخص جس کے پاس انتظامی معاملات چلانے کا تجربہ نہیں ہے تو اسے بلاوجہ میڈیکل سپرنٹینڈنٹ کیوں بنایا گیا تھا اور میرے علم میں یہ بات بھی آئی ہے کہ ڈاکٹر فیصل مسعود خود بھی ایم ایس بننے کو تیار نہیں تھے تو انھیں زبر دستی یہ اضافی عہدہ سونپا گیا تھا اور چند ہفتے پہلے پروفیسر فیصل مسعود نے انتظامی دباؤ محسوس کرتے ہوئے ایم ایس کے عہدہ سے استعفیٰ بھی دے دیا تھا اور انھوں نے اپنا استعفیٰ ہسپتال کے آفیشل واٹس ایپ گروپ میں بھی شئیر کردیا تھا تو پھر وہ کونسی قوتیں تھیں جنہوں نے ان کا استعفیٰ منظور کرنے کی بجائے کام جاری رکھنے کا مشورہ دیا تھا اس لئے ان قوتوں کا بھی پتہ لگایا جانا چاہئیے تاکہ نااہلی کو سپورٹ کرنے پر انھیں بھی فارغ کیا جا سکے۔ مجھے یہ بات کہنے میں ذرا برابر بھی عار نہیں ہے کہ پروفیسر فیصل مسعود انتظامی امور کا بندہ نہیں ہے اور نہ ہی ان کے اندر مسائل کو حل کرنے کی اہلیت ہی موجود ہے اور اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ وہ ہسپتال کے مسائل کو اعلیٰ حکام تک پہنچانے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے تھے اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ مسائل کے حل سے بھاگنے والا شخص ہمیشہ مسائل کو بیان کرنے والی زبانوں کو بند کروانے کی کوشش کرتا ہے اور مسائل کو دبانے پر قوت خرچ کرتا ہے اور پروفیسر فیصل مسعود نے اپنے دور میں یہی کام کیا ہے۔ ہم نے بھی جب کبھی انھیں مسائل کی طرف توجہ مبذول کروانے کی کوشش کی تو انھوں نے مسائل کو سمجھنے سے زیادہ ہمیں سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ ہمارے اچھے کام بھی دکھائے جائیں جبکہ انھیں اس بات کا ادراک بھی نہیں تھا کہ ایک صحافی کا کام ہرگز کسی فرد کی اس بنا پر تعریف کرنا نہیں ہے کہ وہ شخص اپنی ڈیوٹی صیحیح سر انجام دے رہا ہے بلکہ ایک میڈیا پرسن کا کام ہی خرابیوں کی نشان دہی کرکے حکام کی اس طرف توجہ مبذول کروانا ہے تاکہ وہ مسائل کو حل کر سکیں جبکہ میو ہسپتال کی انتظامیہ کے اندر مسائل کو حل کرنے کی نہ تو اہلیت تھی اور نہ ہی کمٹمنٹ ہی موجود تھی۔ میں وزیر اعلیٰ سے کہنا چاہوں گا کہ میو ہسپتال کے معاملات جس قدر بگڑ چکے ہیں وہ محض کسی حکم سے ٹھیک نہیں ہونے والے ہیں بلکہ اس کے لئے ایک مربوط پلان اور مانیٹرنگ سسٹم درکار ہے اور اس کے ساتھ ہی میو ہسپتال کے ذمہ جو دو ارب روپے کے واجبات کئی سال سے واجب الادا ہیں انھیں بھی حکومت ترجیحی بنیادوں پر ادا کرکے ہسپتال کی پرفارمینس کو بہتر بنا سکتی ہے۔
