محکمہ صحت کی مدہوشیاں

(تحریر :شاہد محمود )
چند دن پہلے میں نے لاہور کے ایک سرکاری ہسپتال کے ایم ایس سے رابطہ کرکے انھیں کچھ معلومات فراہم کیں کہ ان کے ہسپتال کی ادویات بھاری مقدار میں میڈیکل سٹوروں اور دکانوں پر بک رہی ہے اور تین تین ہزار روپے کا ٹیکہ محض تین چار سو روپے میں ڈاکٹروں کے کلینکوں پر فروخت ہو رہا ہے۔ میرا مقصد کلی طور پر مخلصانہ تھا کہ قوم کے پیسوں سے خریدی گئی ادویات مریضوں کے کام آنے کی بجائے چند ملازمین کی ہوس کی نظر نہیں ہونی چاہئیں اس لئے میڈیکل سپرنٹینڈنٹ کو اطلاع کی کہ وہ اس چوری کو روک سکیں تو ان صاحب نے پہلا اعتراض یہ داغ ڈالا کہ میرے آنے سے پہلے تو ادویات کی چوری زیادہ ہوا کرتی تھی اور تب تو کوئی اعتراض نہیں کرتا تھا اب میرے تعیناتی کے بعد یہ شور بلا جواز ہے جس پر میں نے ان سے کہا کہ میرا کام بطور صحافی مسائل کو اجاگر کرنا ہے تاکہ آپ جیسے سرکاری عہدیداروں کی مدد کرکے غلط کاری کو روکا جا سکے لیکن آپ کی منطق عجیب ہے کہ اس اطلاع پر کارروائی کرنے کی بجائے آپ دلیل دے رہے ہیں کہ کم چوری آپ کی کامیابی ہے تو پھر اس سوچ کا اللہ ہی حافظ ہے۔ اس پر ان صاحب نے کوئی کاروائی کی یقین دہانی کروانے کی بجائے مجھے مشورہ دیا کہ میں یہ اطلاع سپیشل سیکرٹری سپیشلائزڈ ہیلتھ کو فراہم کردوں تاکہ وہ کاروائی کر سکیں۔ میرے لئے ایم ایس کا یہ مشورہ بڑا حیران کن تھا کہ ایک ہسپتال کا ایڈمنسٹریٹر اور کسٹوڈین صاف الفاظ میں بتا رہا تھا کہ اس کے بس میں اپنے ہی زیر سایہ ہونے والی کرپشن کو روکنے کا کوئی اختیار نہیں ہے اور یہ اختیار سیکرٹریٹ میں بیٹھے بیوروکریسی کے پاس ہے اور ایک ایم ایس کی حیثیت محض ہسپتال میں ایک مانیٹر کی رہ گئی ہے۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارے لوگ بڑے بڑے عہدے تو حاصل کرلیتے ہیں لیکن ان عہدوں پر بیٹھ کر فیصلے کرنے سے یا تو ڈرتے ہیں اور یا پھر ان کے پاس فیصلے کرنے کی اہلیت ہی نہیں ہوتی ہے۔اسی طرح کا اظہار میو ہسپتال میں ایم ایس اور چیف ایگزیکٹو کے عہدوں سے فارغ ہونے والے افراد کے قریبی ساتھیوں نے بھی کیا ہے کہ میدیکل سپرنٹینڈنٹ کا کام ادویات کی فراہمی نہیں ہے اور پھر بھی کئی بار ہیلتھ سیکرٹریٹ کو ادویات کی قلت کے بارے میں لکھا گیا تھا لیکن اس اہم معاملہ پر کوئی بھی کاروائی نہ ہو سکی بلکہ جب میڈیکل سپرنٹینڈنٹ ڈاکٹر فیصل مسعود نے چند ہفتے پہلے استعفیٰ دے دیا تھا اور ہفتہ بھر ایم ایس آفس نہیں آئے تھے تو تب بھی کسی نئی پوسٹنگ کی بجائے چئرمین بورڈ آف منیجمنٹ کی طرف سے مجبور کیا گیا کہ وہ بطور سپرنٹینڈنٹ اپنی ذمہ داریاں جاری رکھیں اور پھر جب ڈاکٹر فیصل مسعود نے دوبارہ اپنے معاملات دیکھنا شروع کئے تو اچانک وزیر اعلیٰ نے میو ہسپتال کا دورہ کیا جس میں ہسپتال کے اندر بد انتظامی اور مریضوں کی آہ و پکار سنتے ہوئے جب فیصل مسعود کو فارغ کیا تو پھر چیئرمین جانے کیوں خاموش رہے اور ایم ایس کی قابلیت کے معترف حضرات خاموشی سے ہاتھ باندھے سارے ماحول کو دیکھتے رہے اور پھر بجائے کہ یہ لوگ اپنے فیصلوں سے وزیراعلی کو قائل کرتے اور حقیقی مسائل کو وزیر اعلیٰ کے سامنے رکھتے بلکہ چند گھنٹوں میں نئے میدیکل سپرنٹینڈنٹ کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن بھی جاری ہو گیا اور جن لوگوں کی نوکریاں بچ سکتی تھیں وہ انھوں نے بچالیں لیکن ان کے فیصلوں سے جو نقصان ہسپتال اور مریضوں کو پہنچتا رہا اس کا مداوا اس طرح نہیں ہو سکتا کہ ایک دو افراد کو قربانی کا بکرا بنا کر تمام بڑے خاموشی سے اپنی نو کریاں کرتے رہیں۔ بدقسمتی ہے کہ ہم نے سرکاری نوکری کو اس قدر پر آسائش بنادیا ہے کہ لوگ اپنی نوکریاں چھوڑنے کو تیار ہی نہیں ہوتے ہیں اور ایسے بھی لوگ ہیں جو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی مختلف چور راستوں سے دوبارہ عہدوں پر قابض ہو جاتے ہیں اور اب تو پی ایم ڈی سی نے مزید آسانیاں پیدا کردیں کہ ٹیچنگ فیکلٹی کے لئے عمر کی حد ستر سال سے بڑھا کر پچھہتر سال کردی ہے اور شاید بہت سارے لوگوں کو نوازنے کے لئے ہی ایسے قوانین اور ضابطے بنائے جاتے ہیں اور پھر عمر بھر عہدوں سے چمٹے رہنے کی ہوس میں ہمیشہ کچھ ماتحتوں کو قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے اور یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے جہاں ہسپتال کے اندر ایسے لوگوں کو فارغ کیا گیا ہے جو خود بھی ان عہدوں کو لینے کے لئے تیار نہ تھے۔ مجھے وہ تصویر اب تک پریشان کرتی ہے کہ سیکرٹری ، وائس چانسلر اور وزیر صحت ہاتھ باندھ کر کھڑے تھے اور وزیر اعلیٰ مسائل کو ڈھونڈ کر کاروائی کر رہی تھیں ان لوگوں نے یقیناً وزیر اعلیٰ کی کاروائی پر تالیاں بھی بجائی ہونگی اور بند کمرے میں بیٹھ کر یہ بھی تسلیم کیا ہو گا کہ وزیر اعلیٰ درست ہیں اور انھیں کے فیصلے غلط تھے اور پھر یہ بھی کہا ہو گا کہ ہمیں وزیر اعلیٰ کے اس دورے سے بڑا کچھ سیکھنے کو ملا ہے اور آئندہ یہ سبق ہمارے کیریئر میں بڑا سود مند ثابت ہو گا لیکن کیا جو لوگ ستر ستر سال تک عہدوں پر بیٹھ کر بھی اصلاح اور ترقی پسند سوچ سے عاری ہوں اور ان کی ساری زندگی انھیں مسائل کا حل نہ بتا سکی ہو تو اب ڈوبتے کیرئیر میں ان کے پاس سیکھنے کو کیا بچے گا سوائے اس کے کہ ان کی نوکری پکی ہو جائے اور ہو سکتا ہے کہ کوئی نیا کنٹریکٹ بھی مل جائے تو پھر پہلے ان کا حساب کتاب بھی ہونا چاہئیے کیونکہ جو حالات میو ہسپتال میں ہیں ویسے ہی حالات باقی سرکاری ہسپتالوں میں بھی موجود ہیں اور یقیناً ان ہسپتالوں کے برے حالات میں میو ہسپتال کی انتظامیہ کا کوئی کردار نہیں ہے تو پھر وہاں کے ہسپتالوں کا ذمہ دار کون ہے۔ بطور صوبے کی چیف ایگزیکٹو کے وزیر اعلیٰ کی کاروائی باقی لوگوں کے لئے مثال تو بن سکتی ہے لیکن مسائل کا حل نہیں ہو سکتی ہے اور مسائل کا حل تبھی نکلے گا جب محکمہ صحت کی بیوروکریسی اور وزیر صحت ان معاملات کو خود تسلیم بھی کریں جبکہ وزیر صحت تو چند دن پہلے کہتے دکھائی دیتے تھے کہ ہم نے سرکاری ہسپتالوں کے معیار کو بہت بہتر کردیا ہے۔ اس وقت جناح ہسپتال میں سب اچھا ہے اور نہ ہی سروسز ہسپتال اور جنرل ہسپتال میں مریضوں کو ادویات مل رہی ہیں اور تو اور کوٹ خواجہ سعید ہسپتال جہاں ادویات موجود تو ہیں لیکن بڑے پیمانے پر ادویات کی چوری ہو رہی ہے اور میروپینم جیسے جان بچانے والے ٹیکے چوری ہونے کے بعد اسی علاقے کی فارمیسوں پر چند سو روپے میں فروخت ہورہے ہیں اور یہ بات یقیناً وزیر صحت اور سیکرٹری صحت کے علم میں ہو گی اور اگر ان کے علم میں نہیں ہے تو یہ اور بھی بڑا جرم ہے کہ ان کی ٹیم مسائل کا حل نہیں دے رہی ہے اور نہ ہی مسائل کو ان کی سطح تک پہنچا رہی اور یا پھر ساری مشینری مسائل کو مسائل سمجھنے جو تیار ہی نہیں ہے اور انھیں عام آدمی کی صحت اور بیماری سے کوئی سروکار نہیں ہے اور ہسپتالوں میں مسائل کے حل کے لئے کسی کے پاس کوئی حل نہیں ہے سوائے اس کے کہ کسی دن خود وزیر اعلیٰ چل کر کسی ہسپتال کا دورہ کریں اور ایسے ہی کسی ایم ایس کو فارغ کردیں اور تب بھی یہی عمر رسیدہ لوگ ہاتھ باندھے کھڑے ہاں میں ہاں ملاتے نظر آئیں گے اور پھر ان کے زیر سایہ کچھ لوگ فارغ ہونگے اور ان کی بادشاہت اور مدہوشی قائم رہے گی ویسے آپس کی بات ہے کہ چیف ایگزیکٹو اور میڈیکل سپرنٹینڈنٹ بھی دو عہدوں کے سوار تھے اور عہدے جانے کے بعد بھی ان کے پاس پروفیسر کا عہدہ موجود ہے اس لئے اس سیاسی اٹھک بیٹھک میں نقصان صرف مریضوں کا ہوتا ہے جو اس کا خمیازہ جانیں دے کر بھگتتے ہیں ۔ تبھی تو اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ وزیر اعلیٰ نے میو ہسپتال میں جو کچھ کیا وہ درست تھا لیکن طریقہ کار ٹھیک نہیں تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں