امیر محمد خان کا کالم

دہشت گردی کے سہولت کار زیادہ سزا کے مستحق

(تحریر :امیر محمد خان )
”عمران نہیں تو پاکستان نہیں“کا مکروہ نعرہ لگانے والی جماعت گو کہ پارلمان میں بھی موجود ہے مگر جب جب پارلیمان میں ملکی تحفظ .پر کوئی اجتماعی اجلاس ہوا ہو چاہے و ہ کشمیر کا مسئلہ پر پارلیمان کی مشترکہ پالیسی، چاہے دہشت گردی کی وجہ سے اسکی روک تھام کیلئے مشترکہ صلاح مشوروں کا مسئلہ ہو پی ٹی آئی کی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ضروری ہے۔ جماعت میں کچھ محب وطن بھی لیڈران ہیں مگر انتشاری پالیسوں کے مقابلے میں انکی آواز بہت مدہم ہے ، بانی کی خواہش ہوتی ہے کہ ہر مسئلہ پر رائے کیلئے پہلے ان سے صلاح مشورہ کیا جائے اگر وہ ہی جماعت کے عقل کل ہیں تو باقی کو گھر بھیج دیں، خیر ان میں سے بیشتر تو وہاں روزگار پر ہیں جسکی طرف اشارہ شیر افضل مروت کرچکے ہیں کہ یہ وکیل نماء لوگ کتنی بڑی بڑی رقم وصول کررہے ہیں لا حاصل مقدمات کی ، عقل کل سے اگر مشور ہ کیا جائے وہاں سے خیر کا تو مشورہ آتا نہیں نہ صرف کسی انتشاری اعلان کے کہ کہاں دھرنا دینا ہے ، کس شہر کو بند کرنا ہے وغٖیرہ وغیرہ انہیں مشوروں نے پاکستانی کی سیاست کو تباہ کردیاہے، بانی سے مشورے کے دوران اگر کوئی غیر انتشاری رائے پیش کرتا ہے تو بانی اسے چلتا کردیتے ہیں اس بناء پر صوبہ سرحد میں تمام تر دہشت گردی، اور دیگر مسائل کے بانی کو وزیر اعلی گنڈہ پور ہی پسند ہیں گزشتہ دنوں جب اسلام آباد میں چڑھائی کے شوق میں میدان میں لوگوں کو لاکر وزیر اعلی خود بھی دیگر لیڈران کے ساتھ اور کپتان کی بیگم کے ہمراہ فرار ہوگئے تھے میدان میں کارکنوں کو چھوڑ دیاتھا، وزیر اعلی خود ”غائب“ ہوگئے تھے تو جماعت کی اکثریت بشمول بانی ان سے شاکی ہوگئے تھے۔ موجودہ جعفرایکسپریس پر دہشت گردگی جو شائد دنیا کی سب سے بڑی واردات ہے جو بلوچستان لبریشن آرمی نے انجام دی،ایک نہائت ہی منظم دہشت گردی تھی جس پر دنیا کو ایک مرتبہ پھر واضح ہوگیا کہ بھارت کی مدد سے دہشت گرد کسطرح پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں، مگر ہماری وزارت خارجہ جس پر ملک کا اربوں روپیہ خرچ ہوتا ہے وہ دنیا کو بھارت کی دہشت گردی کابتانے انہیں بھارت کو دہشت گرد کہلانے میں میں ناکام ہیں، بی ایل اے کے ایک سابق کمانڈر جنہوں نے دہشت گردتنظیم سے علیحدگی اختیار کی تھی تو انہوں نے ذکر کیا تھا بھارتی سورماؤں سے اپنی ملاقات کا جس میں انہوں نے واضح کیا تھا کہ جب بھارت سے بلوچستان کی علیحدگی پر تعاون کی بات کی تو بھارت کا جواب تھا کہ ”ہمیں آپکی آزادی سے کوئی دلچسپی نہیں ہم تو صرف پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کے محب وطن جانتے ہیں کہ پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کیلئے کئی محاذوں پر کام ہورہا ہے وہ پایہ تکمیل تک ہماری عسکری قیادت کی ماہرانہ کاوشوں کی وجہ سے نہیں پہنچ پارہا اور انشااللہ پہنچ بھی نہیں پائے گا۔ پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بانی نہ ہی اپنی حکومت کے دوران اجلاسوں میں شریک ہوئے، حزب اختلاف میں ہوتے ہوئے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا چونکہ انکے مقابلے میں سب ہی جعلی ہیں اور کوئی حقیقت نہیں رکھتے بانی کا یہ شرپسندہ خیال صرف پاکستان کی سیاسی جماعتوں کیلئے ہی نہیں پاکستان کی عسکری قیادت کے متعلق بھی ہے، نیز یہ بات غور طلب ہے کہ دہشت گردوں کے مقابلے کیلئے انکے خلاف لایحہ عمل بنانے کیلئے دہشت گردسوچ کے لوگوں کو بٹھا کرکیا مشورہ کیا جائے، دہشت گردوں نے بلوچستان میں قائد اعظم محمد علی جناح کی یادگار رہائش گاہ پر حملہ کرکے اسے نیست و نابود کیا، پی ٹی آئی نے بھی 9مئی کویہ ہی اقدامات کئے، پی ٹی آئی چاہتی ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف ایکشن نہیں بلکہ ان سے مذاکرات کئے جائیں یہ ایک بہت ہی ملک دشمنی پر مبنی سوچ ہے، دہشت گرد ہمارے جوانوں، اور معصوم شہریوں کو شہید کریں، زبان اور صوبے کی بنیاد پر انکے شناختی کارڈ دیکھ کر انہیں شہید کریں اور ہم ان کفار سے مذاکرات کرین، پی ٹی آئی نے اپنے دور میں افغانستان سے سے بے شمار افغانیوں جنکا تعلق تحریک طالبان سے تھا پاکستان میں بسایا، اور شور مچایا کہ یہ اسوقت کے فوجی سربراہ اورآئی ایس آئی کے سربراہ تھے وہ لائے تھے، وہ یہ کہتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ بانی اسوقت وزیر اعظم تھے اور انکی جماعت ان ہی دونوں افرادکی کفالت میں تھی۔ بالاآخر قومی سلامتی کے اس اجلاس میں تحریک انصاف نے توقع کے مطابق شرکت نہیں کی دو روز قبل انہوں نے ایک جھوٹ پر مبنی بیانیہ بنایا کہ بانی کو رہا کیاجائے اور ان سے مذاکرات کئے جائیں اسکا مطلب تھا کہ زیب بشیر جو اس وقت بلوچستان لیبریشن آرمی کے سربراہ ہیں اور پاکستان کی تباہی کی طرف گامزن ہیں ان سے مذاکرات کئے جائیں، دنیا کو دکھانے کیلئے پی ٹی آئی کے گروہوں نے مطالبہ کیا کہ ہمیں بانی سے ملاقات کرائی جائے تاکہ ہم مشورہ کرسکیں۔یہ بھی ایک بہانہ تھا دنیا کوبتانے کیلئے انہیں پتہ تھا ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ جو لوگ پارلیمان میں ہیں ان سے تو مشورہ ہوسکتا ہے جسکا تعلق ہی پارلیمان سے نہیں وہ تو ”تو کون میں خوا مخواہ“ ہی ہے یا ”بے گانی شادی میں عبداللہ دیوانہ “والی بات ہے۔ انکے سرحد کے وزیر نے اپنی خطاب میں کہہ ہی دیا قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ان دہشت گردوں کے خلاف ایکشن نہیں بلکہ ان سے مذاکرات کئے جائیں، اسکے ساتھ ہی بھارت، امریکہ، دوبئی، برطانیہ میں بیٹھے انکے سوشل میڈیا کے دہشت گرد فوری پروپگنڈے میں مشغول ہوگئے۔ اور جھوٹ پر مبنی وی لاگ بنانا شروع کردئے کہ جنرل عاصم منیر سے فوج نے استعفے طلب کرلیا، ہائے بے چاروں کی خواہش ۔۔دہشت گردوں کے ٹارگیٹ ہمیشہ CPEC پراجیکٹس رہے ہیں، وہ ساتھ ہی یہ بھی بیان دیتے ہیں کہ بلوچستان میں زیادتی ہورہی ہے ہمیں ہمار ا حق نہیں مل رہا، CPEC پاکستان کی ترقی کی طرف ایک اشارہ ہے جب ترقی ہی رک جائے گی تونہ صرف بلوچستان، بلکہ دیگر صوبوں کو بھی معاشی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اب حکومت کا فرض ہے کہ وہ صرف دہشت گردوں کا پیچھا نہ کرے، بلکہ ملک میں بیٹھے انکے سہولت کاروں کو بھی سخت سزائیں دینے میں کسی رعائت کا اظہار نہ کرے، سہولت کار زیادہ سزاؤں کے مستحق ہیں،9مئی کے مجرمان کو سزائیں تاحال نہ دیکر ہم قومی جرم کے مرتکب ہوئے ہیں جس سے ملک دشمن سہولت کاروں میں ایک مرتبہ پھر جان آگئی ہے ، اس جماعت کی تنظیمیں جہاں جہاں تھیں وہاں پھر سر اٹھا رہی ہیں خاص طور پر خلیج میں، امریکہ، برطانیہ میں تو سر اٹھانے والے پاکستانی پاسپورٹس کے بھی حامل نہیں ہیں۔سیاست کرنا جرم نہیں ہر ایک کو حق ہے مگر ملکی کی بنیادیں کھوکلی کرنے کا کسی کو حق نہیں سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بلاول بھٹو کی تقریر شاندار تھی، وزارت خارجہ کو فوری چاہئے کہ وہ بااثر وفود بیرون ملک میں بھیجے اور بھارت کی جانب سے پاکستان میں دراندازی کو بیرونی دنیا میں روشناس کرائے، وہ وفود بااثر ہوں نہ کہ صر قومی خزانے پر بوجھ بننے والے، اعلی ہوٹلوں کی رہائش، الاؤنسز حاصل کرنے والے۔انکا نعرہ یہ ہو کہ ہمیں اب کچھ کرنا ہے۔بھارتی لابی بیرون ملک ہم سے بہت آگے ہے اسلئے محنت کی ضرورت ہے،مشورہ یہ ہے کہ اسوقت بلاول بھٹو کو ہی بیرون ملک بھارتی پروپگنڈہ اور پاکستان کے خلا ف بھارتی، افغانی سازش سے اعلی اداروں کو روشناس کرانے کی ذمہ داری دی جائے۔ ملک ہے تو سب کچھ ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں