مہنگائی کے المیے۔۔۔ (حصہ اول )

(تحری:ر شاہد محمود )
پاکستان میں پچھلے پانچ سال میں جو مہنگائی کا طوفان برپا ہوا ہے اس کے بعد اب ملک کی بڑی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے لڑھک چکی ہے اور روپے کی گرتی ہوئی حیثیت نے اچھے بھلے خوشحال لوگوں کو محتاج اور مجبور کردیا ہے اور اب حالت یہ ہے کہ لوگوں کے پاس کھانے کے لئے مناسب سہولیات موجود نہیں ہیں جس کی وجہ سے چھوٹے کاروبار ختم ہونے لگے ہیں اور بیروزگاری نے نوجوانوں کو مایوسی کا شکار کیا ہے جس کا مظاہرہ سر عام سوشل میڈیا پر نفرت کی صورت میں دکھائی دیتا ہے ۔ مہنگائی نے پچھلے چند سالوں میں وطن عزیز کا نقشہ ہی بدل ڈالا ہے اور بے شمار ایسی چیزیں لوگوں کی پہچ سے باہر ہو گئی ہیں جنہیں کبھی ہم بنیادی استعمال کا حصہ سمجھتے تھے۔ آج سونا اور سونے کے زیورات اکثریت کی دسترس سے باہر ہو چکے ہیں اور چند سال پہلے یہی زیورات ہر شادی کے دوران دلہن کو والدین اور سسرال کی طرف سے بطور تحائف ملتے تھے اور اکثر خواتین سونے کے زیورات پہننے میں فخر محسوس کرتی تھیں لیکن آج سونے کی قیمت تین لاکھ روپے تولہ سے بھی کراس کر گئی ہے جس کے بعد عملی طور پر سونے کے زیورات بنوانا ممکن ہی نہیں رہا ہے اور اب مختلف دھاتوں سے بنے زیورات شادی بیاہ کا حصہ بن گئے ہیں۔ پرویز مشرف کے دور میں وطن عزیز میں بینکوں سے فنانسنگ کی گاڑیوں کا سیلاب نمودار ہوا تھا اور ہر مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے خاندانوں نے قسطوں پر گاڑیوں خرید لی تھی اور اسی طرح اکثر نیشنل اور ملٹی نیشنل کمپنیوں نے بھی اپنے ملازمین کو گاڑیاں دے رکھی تھیں لیکن موجودہ حالات میں اب گاڑی خریدنا عام آدمی کے لئے ممکن نہیں رہا ہے کیونکہ ملک کے اندر تیار ہونے والی سوزوکی کمپنی کی سب سے چھوٹی آلٹو گاڑی بھی تیس لاکھ روپے کی حدود کو عبور کر چکی ہے جبکہ ہزار سی سی گاڑیاں چار سے پانچ ملین کی رینج میں ملتی ہیں جبکہ دوسری طرف پٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور ملک میں سی این جی کے ذخائر میں کمی کے بعد کسی بھی مڈل کلاس کے شخص کے لئے گاڑی خریدنا اور روزانہ کی بنیادوں پر گاڑی پر سفر کرنا ممکن نہیں رہا ہے اور جس کی وجہ سے شہروں میں موٹر سائیکلوں کا ہجوم بڑھ گیا ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی گرمی کے پیش نظر آئر کنڈیشنڈ کا استعمال بھی ایک دو دھائیوں سے بہت بڑھ گیا تھا اور سپلٹ اے سی کی مارکیٹ میں بے تحاشا اضافہ دیکھنے میں آیا تھا اور شہروں میں اے سی کا استعمال عام ہو گیا تھا کیونکہ یہ اے سی سستے داموں مل جایا کرتا تھا اور بجلی کا خرچ بھی کم تھا لیکن اس وقت انورٹر اے سی کی قیمت دو لاکھ روپے تک پہنچ گئی ہے اور پھر بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے لوگوں کی بچتوں کو عملاً ختم کردیا ہے اور پچھلے دو سالوں میں ایک لاکھ روپیہ کمانے والے افراد کا بل بھی پچاس پچاس ہزار روپے تک پہنچ گیا تھا جس کے بعد امیر لوگوں نے تو گھروں میں سولر سسٹم لگوالئے ہیں جبکہ مڈل کلاس کے افراد نے ائر کنڈیشنڈ بند کرکے ائر کولر پر انحصار بڑھادیا ہے جس کے بعد پچھلے سالوں میں ریکارڈ ائر کولر فروخت ہوئے ہیں اور آنے والے دنوں میں جو لوگ سولر توانائی استعمال نہیں کریں گے ان کے لئے اے سی کا استعمال بھی ممکن نہیں رہے گا۔ اسی طرح پاکستان میں شرح خواندگی کبھی بھی حوصلہ افزا نہیں رہی ہے اور ایک بڑی آبادی آج بھی معیاری تعلیم سے محروم ہی ہے جبکہ حکومتوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے سرکاری سکول ایک طرف تو ناکافی ہیں اور دوسرا ان کا معیار اور ڈسپلن ہمیشہ سوالیہ نشان ہی رہا ہے جس ی وجہ سے پچھلی تین دھائیوں میں پرائیویٹ سیکٹر میں سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں کا ایک بڑا نیٹ ورک وجود میں آیا ہے ان تعلیمی اداروں کی فیسیں بھی بہت زیادہ نہیں تھیں اس لئے شہروں میں بالخصوص بڑی تعداد میں بچے پرائیویٹ سکولوں کا رخ کرنے لگے تھے اور اس طرح یہ تعلیمی ادارے ملک میں تعلیمی سرگرمیوں کو بڑھانے میں کردار ادا کرتے رہے ہیں لیکن موجودہ حالات میں ان پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں فیسوں میں بہت بڑا اضافہ ہو چکا ہے اور دوسرا پٹرول کی بڑھتی قیمتوں نے تعلیمی اداروں تک جانے والی ٹرانسپورٹ کو بھی اس قدر مہنگا کردیا ہے کہ اکثر والدین شکوہ کرتے ہیں کہ انھیں بچوں کو تعلیمی اداروں تک پہنچانے کے لئے ٹرانسپورٹ کی مد میں جو رقم خرچ کرنا پڑتی ہے وہ بچوں کی فیس سے بھی زیادہ ہے مطلب یہ ہے ایک طرف تو فیسیں دگنی ہو گئی ہیں اور دوسرا ٹرانسپورٹ کے خرچوں نے عملاً بچوں کے تعلیمی اخراجات کو چار گنا تک بڑھا دیا ہے اور اسی طرح کے خیالات کا اظہار پرائیویٹ سکولوں کے مالکان بھی کرتے ہیں کہ ان کے کل منافع سے بھی زیادہ گرمیوں کے موسم میں بجلی کے بل آجاتے ہیں جس کی وجہ سے بہت سے تعلیمی ادارے بند ہوتے دکھائی دیتے ہیں اور پھر مہنگائی کے اس دور میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی روزگار نہ ملنے کی وجہ سے بھی والدین تعلیم پر زیادہ توجہ نہیں دیتے ہیں۔ دوسری طرف پبلک یونیورسٹیوں کی فیسیں بھی کئی گنا بڑھ چکی ہیں اور ہر یونیورسٹی انٹری ٹیسٹ کے نام پر طلبا کو الگ سے لوٹنے میں مصروف ہے اور اب تو ان یونیورسٹیوں کی روایت ہی بن گئی ہے کہ سالانہ داخلوں کے لئے تین تین بار انٹری ٹیسٹ کا ڈرامہ رچا کر کروڑوں روپے عوام کی جیبوں سے نکلوا لیتی ہیں اور پھر حد ہے کہ ان کی فیسوں کے چالان میں وہ خرافات ڈالی جاتی ہیں کہ انسان سر پکڑ کر بیٹھ جائے۔ کل ہی پنجاب یونیورسٹی کے ایک سٹوڈنٹ کا چالان نظر سے گزرا جس میں ٹیوشن فیس سے زیادہ سروسز چارجز ڈالے گئے تھے اور پھر قریب اتنے ہی ڈیپارٹمنٹل چارجز شامل کرکے پھر اضافی چارجز کے نام پر بھی کئی ہزار کی رقم ڈالی گئی تھی گویا اب تعلیمی ادارے بھی واپڈا کے بل کی طرز پر عوام سے پیسے نکلوانے میں مصروف ہیں ان حالات میں لگتا یہی ہے کہ آنے والے دنوں میں تعلیم کا حصول بھی لوگوں کے لئے مشکل ہو جائے گا ۔ ہم بچپن میں دیسی گھی کا استعمال کرتے تھے اور لوگ ہانڈی بھی دیسی گھی میں پکاتے تھے لیکن اب ساڑھے تین ہزار روپے میں دیسی گھی خرید کر کچن میں استعمال کرنا ناممکن ہو چکا ہے اور حد تو یہ کہ مختلف کوکنگ آئل کی قیمتوں میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے تو خطرہ ہے کہ دیسی گھی کے بعد لوگ ویجیٹبل آئل سے بھی محروم ہو جائیں گے جبکہ خالص دودھ پہلے ہی ناپید ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص خالص دودھ پینا چاہتا ہے تو وہ چار سے پانچ سو روپے لٹر سے کم پر ممکن نہیں ہے اس لئے خالص دودھ بھی نئی نسل کی پہنچ سے باہر ہو چکا ہے۔ اسی طرح ہماری نسل بکرے کے گوشت اور گائے کا قیمہ کھا کر بڑی ہوئی ہے لیکن اب تین ہزار روپے کلو کا مٹن ملک کی اسی فیصد سے زیادہ آبادی کھانے کے قابل نہیں ہے جبکہ برائلر مرغی کا گوشت بھی چند سالوں میں کئی گنا مہنگا ہو چکا ہے اور رمضان میں اس کی قیمت سات آٹھ سو روپے کلو پر پہنچ چکی ہے اور اگر صاف گوشت دیکھا جائے تو شاید وہ اس سے بھی مہنگا ہو گا اس لئے خدشہ یہی ہے کہ برائلر مرغی کا گوشت بھی چند سالوں میں نایاب ہو جائے گا۔ جاری ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں