(تحریر:امیر محمد خان )
پاکستان اور شاہدد دوسرے ممالک میں ایک شور ہے کہ امریکی صدر اپنے 2016 ء کے دور کے دوران اپنے اعلانات جو انہوں نے امریکہ سے غیر قانونی داخل ہونے والوں کو ملک بدر کرنے کی پالیسی کا اعلان کیئے تھے ایک مرتبہ پھر انہوں نے اسی قسم کے اعلانا ت کئے ہیں اور ایک عام خیال ہے کہ اس مرتبہ انکی انتظامیہ سختی سے صدر کے احکامات کی تعمیل کریگی اور اس سلسلے میں لاکھوں غیر قانونی طور پر پرامریکہ میں داخل ہوئے لوگو ں کو انکے ملکوں میں بھیج دیا جائے،جب لفظ ”غیر قانونی“ استعمال ہورہا ہے تو اس پر ہونے والی پریشانیاں میری سمجھ سے بالا تر ہیں۔دنیا بھر میں لفظ غیر قانونی کو کسی بھی طرح مثبت انداز میں نہیں لیا جاسکتا۔میں اسوقت امریکہ میں چھٹیاں گزار رہا ہوں اور مختلف لوگوں سے بات کررہا ہوں جن میں مقامی، غیر مقامی (جو اب یہاں کے مقامی بن چکے ہیں) سے بات چیت کررہا ہوں ساتھ ہی پاکستانی میڈیا کے وی لوگرز، اخبارات بھی دیکھ رہا ہوں صدر ٹرمپ کی امریکہ سے غیر قانونی افرادکو نکالے جانے کی خبرین شہ سرخیوں میں ہمارے اخبارات میں لگ رہی ہیں اور حسب عادت ”مرچ مصالحے“ کے ساتھ سنسنی پیدا کررہے ہیں دنیا کے ہر ملک کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے ملک میں کسی غیر قانونی کو رہنے نہ دیں، سمجھدار لوگ جانتے ہیں اس سے ملک میں کیامسائل پیدا ہوتے ہیں مثال کے طور پر کوئی ریکارڈ نہ ہونے کی وجہ سے جرائم کی روک تھام نہیں ہوسکتی، ٖغیرقانونی طور پر مقیم کئی قسم کے جرائم میں ملوث ہوجاتے ہیں، سعودی عرب میں غیر قانونی افراد کا ہر چند ماہ میں نکالے جانا، حال میں پاکستان کی خواہش کہ وہاں سے غیر قانونی افغانیوں کی بے دخلی وغیرہ حالانکہ پاکستان میں تو بنگالی، برمی بھی پاکستان کے مزے اڑا رہے ہیں صرف افغانیوں کی بے دخلی پر زور ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور اس میں افغانیوں کے ملوث ہونا اسکی وجہ ہے۔ اس پر بھی افسوس ناک بات یہ ہے کہ دہشت گردگی میں ملوث ہونے کے باوجود کچھ سیاسی جماعتیں جو افغانستان میں اپنے مفادات رکھتی ہیں ا س عمل میں حکومت کے ساتھ نہیں، جب لوگ غیر قانونی طور پر کسی ملک یں داخل ہوتے ہیں تو انکی تمام کوششیں ویاں کا پاسپورٹ حاصل کرنا ہوتا ہے اور خاص طور پر ہمارے ملک میں رشوت لیکر پاسپورٹ جاری کردیتے ہیں جو ایک سنگین جرم ہے میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہر ملک کا حق ہے کہ وہ اپن ہاں ”گھس بیٹھیوں“کو نکال باہر کرے امریکہ میں باہر سے آئے ہوئے افراد ان وکلاء سے رابطہ کرتے ہیں جو انہیں فیس کے عوض پاسپورٹ دلا سکیں، امریکہ میں باقی ملکوں کو میں ذکر کر نہیں کرتا مگر پاکستانیوں کی بڑی تعداد نے کبھی مارشل لاء، کبھی دیگر حکومت مخالف تحریک کا بہانہ کرکے، امریکہ اور دیگر ممالک پہنچ کر سیاسی پناہ حاصل کی اسکی حقیقت یہ ہے کہ وہ کئی مرتبہ پاکستان، اور دیگر ممالک میں امریکہ سے سفر کرچکے ہیں یہ کونسی سیاسی پناء؟ جس پر وہ دنیا بھر میں گھومتے رہیں، نیز سب سے زیادہ خوفزدہ وہ پاکستان بھی ہیں جو کسی وقت غیر قانونی طور پر امریکہ میں داخل ہوئے، پاسپورٹ حاصل ہوگیا اور اب سوشل میڈیا یا اپنے تعلقات استعمال کرتے ہوئے اپنی حرکتوں سے نہ صرف پاکستان کو بدنام کررہے ہیں بلکہ عسکری قیادت، سیاسی قیادت کے خلاف جھوٹا، زہریلہ پروپگنڈہ،بے ہودہ پوسٹرز سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہیں وہ اگر تحقیق کے بعد پاکستان گئے تو انکے لئے یہ فلمی مکالمہ کہا جاسکتا ہے کہ ”تیرا کیا ہوگا کالیہ“ میری یہاں ملاقاتوں میں یہاں موجود پاکستانی صحافی بھی شامل ہیں انکی رائے بھی مجھ سے مختلف نہیں ہے۔ صدر ٹرمپ کے اس مسئلے پر بیانات اور ان پر سختی سے عمل درآمد کے حوالے سے صورتحال یہ ہے کہ اس میں خاص طور پر وہ غیر قایونی گھس بیٹھیے شامل ہیں جو براہ راست زمینی راستوں سے امریکہ میں داخل ہوئے ہیں۔ اب یہاں صورتحال یہ ہے جسکے لئے کہا گیا ہے کہ ”چور کی داڑھی میں تنکا“میں یہاں دیگر ممالک کے افراد کا ذکر نہیں کرتا مگر ہمارے پاکستانی جو اپنے آپ کو جانتے ہیں کہ وہ غیر قانونی طور پر آئے تھے چاہے کئی سال پہلے انکے درمیان امریکہ وکلاء یا امیگریشن دلوانے والے ادارے اپنی دکان چمکا نے کیلئے افواہیں پھیلا رہے ہیں کہ اگر امریکہ سے باہر گئے تو واپسی پر وہ امریکی ہوائی اڈے پر تفیتیش کی بناء وہ امریکہ میں داخل نہیں ہوسکیں گے،نیز کئی لوگ جو اب تک پاسپورٹ حاصل نہیں کرسکے، یا یہاں انکوایئری کے خوف سے وکلاء سے رجوع کررہے ہیں، صدر ٹرمپ نے بیان میں کہا”غیر قانونی امیگریشن کی حمایت یا مدد نہ کرو۔انہوں نے کہا کہ غیر قانونی امیگریشن قومی سلامتی، معیشت اور قانون کی حکمرانی کے لیے خطرہ ہیں۔انہوں نے واشگاف الفاظوں میں امیگریشن کے وکلاء کو کہا کہ ”ہم قانون کی قوم ہیں۔ اگر آپ ان قوانین کو توڑنے میں غیر قانونی تارکین وطن کی مدد کرتے ہیں، تو آپ اس مسئلے کا حصہ ہیں۔میں پانچ دفعہ پہلے بھی امریکہ آچکا ہوں، ایک یا دو مرتبہ کچھ سوال کئے گئے مگر اس مرتبہ کوئی سوال نہ ہوا، اسوقت مجھے اپنے ملک کا میڈیا یاد آیا کہ کیا واویلہ مچارکھا ہے۔ ٹرمپ کیلئے مشکلات اندرونی طور پر ہیں چونکہ معیشت کی درستگی کی ذمہ داری ایلوں مسک کو دی گئی جو بڑے صنعت کار ہیں انکی ذمہ داری ہے کہ وہ سرکاری ملازمین کی کارکردگی دیکھیں جس سے امریکی حکومت کے ملازمین میں نمایاں بے چینی کا باعث بنی ہیں۔ بہت سے وفاقی کارکنوں نے افرادی قوت میں اچانک کمی، پالیسی میں تبدیلی، اور ملازمت کے تحفظ کو لاحق خطرات کی وجہ سے عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ مزید برآں، مسک کی ہدایت جس میں وفاقی ملازمین کو برطرفی کے خطرے کے تحت اپنی ہفتہ وار کامیابیوں کا جواز پیش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، کو الجھن اور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ متعدد ایجنسیوں نے عملے کو فوری طور پر تعمیل نہ کرنے کا مشورہ دیا، جس سے قانونی چیلنجز پیدا ہوئے اور مسک کے انتظامی انداز اور قائم کردہ وفاقی پروٹوکول کے درمیان تناؤ کو نمایاں کیا۔ اس صورتحال میں ٹرمپ کی پالیساں حکومتی سطح پر پسندیدہ نہیں ہیں چونکہ سرکاری ملازمین کو اپنی ملازمتوں کو خوف ہے نیز ہفتہ واری انکے کاموں کی تفصیلات طلب کی جاتی ہیں اور دنیا بھر میں کوئی بھی نوکر شاہی اپنے آپ کو کسی کے سامنے جواب دہ نہیں سمجھتے۔ یہ صورتحال بھی بتاتی ہے کہ غیرقانونی افراد کے دیس نکالا پر شائد اس تیز رفتاری کے ساتھ عمل نہ ہو جسطرح ٹرمپ چاہتے ہیں۔ اس دفعہ میں دو سال بعد امریکہ آیا ہوں تو رمضان المبارک میں یہ دیکھ کر بے شمار خوشی ہوئی کہ یہاں مساجد کی بڑی تعداد ہو گئی اوریہ مساجد حکومت نہیں بناتی بلکہ یہاں موجود مسلمان جگہ خرید کر مسجد تعمیر کرتے ہیں اور متعلقہ شعبہ سے اسکی اجاز ت حاصل کرتے ہیں جہاں میں نے دیکھا نماز، تراویح، آخری طاق راتوں کی عبادت میں مرد، خواتین، بچوں کی بڑی تعداد ہوتی ہے ایک قابل تعریف بات یہ ہے کہ ہم بچوں کو مساجد میں باجماعت نماز میں حوصلہ افزائی نہیں کرتے، نیویارک میں نے دیکھا کہ نماز سے قبل اقامت کسی بچے سے کرائی جاتی ہے،جس پروپگنڈہ کا ہم شکار ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ امریکہ میں امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ایسا کچھ نہیں، نیوجرسی کے نزدیک میں نے دیکھا جہاں بنگلہ دیش کی بڑی تعداد رہتی ہے وہاں تو شہروں کی بنیاد پر مساجد موجودہیں، ڈھاکہ، سہلٹ و دیگر شہروں کے حوالے سے مساجد ہیں صرف نیو جرسی میں اسوقت 197شاندار مساجد موجود ہیں جنکی کمیٹیا ں ہیں جو اسکا انتظام سنبھالتی ہیں، تراویح کے بعد مساجد میں نمازیوں کی تواضع بلا معاوضہ چائے اور میٹھی اشیاء سے کی جاتی ہے۔
