واشنگٹن۔امریکہ نے چینی مصنوعات پر 104 فیصد درآمدی محصولات عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔وائٹ ہاؤس کی ترجمان، کیرولین لیویٹ نے وضاحت کی کہ کچھ چینی اشیاء پر یہ نیا ٹیرف فوری طور پر نافذ العمل ہوگا۔
یہ فیصلہ چین کی جانب سے اپنے ردعمل میں عائد کیے گئے محصولات واپس نہ لینے کے تناظر میں کیا گیا ہے۔ لیویٹ کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ کا ماننا ہے کہ چین مذاکرات کی راہ اختیار کرنا چاہتا ہے۔ ان کے مطابق تقریباً 70 ممالک نے امریکہ سے ٹیرف کے حوالے سے بات چیت شروع کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔
نہ تو ان محصولات کے نفاذ میں تاخیر کی جائے گی اور نہ ہی ان میں نرمی کی گنجائش رکھی جائے گی۔ دوسری جانب، چین نے خبردار کیا ہے کہ اگر امریکہ نے مزید تجارتی رکاوٹیں کھڑی کیں، تو بیجنگ بھی بھرپور جوابی اقدامات سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔
چینی وزارت تجارت کے ترجمان، لین جیان نے بیان دیا کہ بیجنگ ٹیرف کے محاذ پر آخری حد تک مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے، اور امریکہ کی جانب سے لگائے گئے جوابی محصولات بے بنیاد ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ چین نے جو جوابی تدابیر اپنائی ہیں وہ مکمل طور پر قانونی اور جائز ہیں، جن کا مقصد قومی خودمختاری، سلامتی، ترقی اور عالمی تجارتی نظام کے توازن کا دفاع ہے۔
صدر ٹرمپ کے محصولات کے فیصلے کے بعد امریکی خریداروں نے دنیا کے دوسرے بڑے گارمنٹس تیار کنندہ ملک، بنگلہ دیش سے اپنے آرڈرز روکنا شروع کر دیے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ نے بنگلہ دیش کی روئی سے بنی مصنوعات پر 37 فیصد نئے ٹیرف عائد کیے ہیں۔ امریکی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے ٹرمپ نے ٹیرف سے پیدا ہونے والی مالی غیر یقینی صورتحال پر کہا ہے کہ انہیں بالکل پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
ماہرین کا اندازہ ہے کہ امریکہ میں کساد بازاری کا خدشہ 60 فیصد تک بڑھ چکا ہے۔ گیلپ کے ایک تازہ سروے کے مطابق، ٹرمپ کی مقبولیت میں 4 فیصد کی کمی ہوئی ہے، جس کے بعد ان کی مقبولیت 43 فیصد تک رہ گئی ہے۔
ادھر لکسمبرگ میں یورپی یونین کے وزرائے تجارت کا اجلاس منعقد ہوا، جہاں بعد ازاں یورپی ٹریڈ کمشنر نے اعلان کیا کہ یورپ نے بھی امریکی مصنوعات پر جوابی ٹیرف عائد کرنے کی تیاری مکمل کر لی ہے، اور ان مصنوعات کی حتمی فہرست 15 اپریل کو منظور کی جائے گی۔