واشنگٹن: امریکی امیگریشن حکام نے نئی ہدایت جاری کی ہے جس کے تحت سوشل میڈیا پر یہود مخالف بیانیہ اپنانے والے افراد کو ویزا یا مستقل رہائش کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
یہ اقدام سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں سامنے آنے والی نئی امیگریشن پالیسی کا حصہ ہے، جس کا مقصد ایسے غیر ملکیوں کی امریکا آمد کو روکنا ہے جو مبینہ طور پر یہودی مخالف خیالات رکھتے ہیں یا دہشت گرد گروہوں کی حمایت کرتے ہیں۔
امریکی محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی کی سیکریٹری کرسٹی نوم نے بیان میں کہا:
“جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ امریکا آکر آزادیٔ اظہار کی آڑ میں یہود دشمنی یا دہشت گرد تنظیموں کی حمایت کریں گے، وہ سخت غلطی پر ہیں۔ ایسے افراد کے لیے امریکا میں کوئی جگہ نہیں۔”
سرکاری اعلامیے کے مطابق، اگر کوئی فرد حماس، حزب اللہ یا حوثی جیسی تنظیموں کی حمایت میں سوشل میڈیا پر سرگرم پایا گیا تو یہ ویزا یا گرین کارڈ کے حصول میں ایک منفی پہلو کے طور پر لیا جائے گا۔
یہ نئی پالیسی فوری طور پر نافذ کر دی گئی ہے، اور اس کا اطلاق نہ صرف ویزا درخواست گزاروں پر ہو گا بلکہ ان غیر ملکی طلبا پر بھی ہو گا جو امریکا میں مستقل رہائش کے خواہشمند ہیں۔ سیکریٹری آف اسٹیٹ مارکو روبیو کے مطابق، اب تک 300 سے زائد افراد کے ویزے منسوخ کیے جا چکے ہیں۔
متاثرہ افراد کا کہنا ہے کہ وہ صرف احتجاجی مظاہروں میں شریک تھے اور ان کا مقصد کسی مذہب یا قوم کے خلاف نفرت پھیلانا نہیں تھا۔ ان میں سب سے نمایاں مثال کولمبیا یونیورسٹی نیویارک کے طالبعلم محمود خلیل کی ہے، جنہیں حال ہی میں ملک بدر کیا گیا حالانکہ وہ قانونی طور پر امریکا میں مقیم تھے۔
دوسری جانب، ٹرمپ انتظامیہ نے ان تعلیمی اداروں کو بھی وفاقی فنڈنگ سے محروم کر دیا ہے جو غزہ جنگ کے دوران ہونے والے مظاہروں میں مبینہ طور پر یہود مخالف نعروں کو روکنے میں ناکام رہے۔