داسو منصوبہ 240 فیصد مہنگا، ذمہ داری کسی فرد یا ادارے پر نہیں ڈالی گئی

ایک سرکاری تفتیش میں داسو ہائیڈرو پاور منصوبے کی لاگت میں 240 فیصد اضافے، جس سے مجموعی لاگت 6.2 ارب ڈالر تک جا پہنچی، کی ذمہ داری کسی ایک فرد یا ادارے پر عائد نہیں کی گئی۔ رپورٹ میں چینی ٹھیکیداروں، واپڈا اور پلاننگ کمیشن کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

تین رکنی تحقیقاتی ٹیم نے زمین کی خریداری میں تاخیر کی ذمہ داری کوہستان کی ضلعی انتظامیہ پر ڈالی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چینی عملے پر دو مہلک حملوں کے بعد سیکیورٹی میں اضافے کے باعث 48 ارب روپے کی اضافی لاگت آئی، تاہم یہ کُل لاگت کا صرف 3.8 فیصد بنتی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ متعدد وجوہات اور غیر متوقع رکاوٹوں کے باہم اثرات نے منصوبے کو دس برس کی تاخیر اور لاگت میں 1.3 کھرب روپے یا 240 فیصد اضافے کا باعث بنایا۔

ڈالر میں شمار کی جائے تو منصوبے کی قیمت 6.2 بلین ڈالر تک پہنچ چکی ہے، جس کے بعد 2160 میگاواٹ کے اس منصوبے کی کل لاگت تقریباً 1.74 کھرب روپے ہو گئی ہے، جو غیر معمولی حد تک زیادہ ہے۔

کمیٹی نے بتایا کہ چینی کنٹریکٹرز نے ماہرین کی ہدایات کو نظرانداز کیا، ضلعی انتظامیہ وقت پر زمین حاصل نہ کر سکی، جبکہ واپڈا نے زمین کی دستیابی یقینی بنائے بغیر تعمیراتی معاہدے جاری کر دیے۔ اس کے باوجود واپڈا کے کسی چیئرمین یا اعلیٰ عہدیدار کو نام لے کر قصوروار نہیں ٹھہرایا گیا، جبکہ پلاننگ کمیشن کو زمین سے متعلق مسائل میں ناکامی کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔

وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کی زیر صدارت سینٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی نے داسو منصوبے کے لیے قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی سے مشروط منظوری کی سفارش کی۔

رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ منصوبے میں تاخیر کی وجوہات کا تعلق مختلف پیچیدہ عوامل سے ہے۔ یہ انکوائری 2019 کے لاگت میں اضافے کی پہلی نظرثانی کے بعد دسمبر میں حکومت کے احکامات پر شروع کی گئی تھی۔ انکوائری کی سربراہی سول انجینئر اطہر حمید کر رہے تھے، جب کہ دیگر ارکان میں وزارت آبی وسائل کے ڈائریکٹر مانیٹرنگ سید ایاز محمد حیدر اور پروکیورمنٹ ماہر عمران نجم شامل تھے۔

انکوائری کے مطابق منصوبے میں تاخیر کی بڑی وجوہات میں زمین کی خریداری، معاوضوں کی ادائیگی، آبادکاری کے عمل میں مشکلات، غیر متوقع انتظامی مسائل اور پیچیدہ طریقہ کار شامل ہیں۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ مقامی آبادی کی جانب سے مزاحمت، کنٹریکٹرز اور کنسلٹنٹس کے درمیان رابطے کا فقدان، سیکیورٹی چیلنجز، دشوار گزار علاقہ، غیر متوقع زمینی حالات اور سیلاب جیسے قدرتی عوامل نے بھی منصوبے کی رفتار کو سست کر دیا۔

وزارت آبی وسائل کے سیکرٹری سید علی مرتضیٰ نے کہا کہ یہ انکوائری چیف انجینئرنگ ایڈوائزر جیسے خودمختار ادارے نے کی، جو اس قسم کی تفتیش کے لیے مقرر ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ انکوائری کے مطابق 85 فیصد لاگت میں اضافہ مہنگائی کے سبب جبکہ باقی 15 فیصد منصوبے کے ڈیزائن اور دائرہ کار میں تبدیلی کی وجہ سے ہوا۔

رپورٹ کے مطابق منصوبے کی کامیاب تکمیل وفاقی حکومت، خیبر پختونخوا حکومت، مقامی انتظامیہ، واپڈا، کنٹریکٹرز، کنسلٹنٹس اور مقامی آبادی کے مابین مؤثر تعاون پر منحصر ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں