کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں پاکستان سپر لیگ کے میچز کے دوران خالی نشستیں اب معمول بن چکی ہیں۔ حالیہ سنسنی خیز مقابلے — کراچی کنگز بمقابلہ ملتان سلطانز — میں بھی شائقین کی حاضری مایوس کن رہی، جس نے ایک بار پھر سوالات کو جنم دیا ہے: کروڑوں کی آبادی والے شہر میں اپنی ٹیم کو اسٹیڈیم آ کر دیکھنے والے کیوں نہیں آتے؟
اسی حوالے سے مشہور یوٹیوبر اور کانٹینٹ کری ایٹر ارسلان نصیر نے مزاحیہ مگر معنی خیز تبصرہ کرتے ہوئے کہا،
“اگر ’جیتو پاکستان‘ جیسا کوئی انعامی پروگرام اسٹیڈیم میں رکھ دیا جائے اور تین موٹرسائیکلیں سامنے کھڑی کر دی جائیں، تو پورا اسٹیڈیم بھر جائے گا۔”
ان کی طنزیہ بات دراصل ایک سنجیدہ حقیقت کی نشاندہی کر رہی تھی — کہ کراچی والے جہاں انعامی شوز کے لیے گھنٹوں قطار میں لگ جاتے ہیں، وہیں اپنی ٹیم کے لیے جذبہ دکھانے میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سیزن میں حکام نے عوام کی سہولت کے لیے کئی رکاوٹیں ہٹا دی تھیں۔ روڈ بندش کا مسئلہ حل کر لیا گیا تھا اور پارکنگ کی سہولیات بھی دستیاب تھیں، مگر پھر بھی تماشائیوں کی تعداد میں خاطرخواہ اضافہ نہیں ہوا۔
ارسلان نصیر کا بیان درحقیقت کرکٹ فینز کے عمومی رویے پر ایک تلخ طنز تھا — کیا ہمیں اپنی ٹیم کے لیے صرف تب ہی جوش آتا ہے جب کوئی انعام جیتنے کا موقع ہو؟
فی الوقت، حالات یہی بتاتے ہیں کہ کراچی کے باسی اپنی ٹیم کو بڑی اسکرین پر دیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں، اور اسٹیڈیم میں موجودگی کو شاید غیر ضروری سمجھتے ہیں — چاہے کھیل میدان میں ہو یا حریف سخت ہو!