سائنس دانوں کا انسانی آنکھ سے پوشیدہ ایک نیا رنگ دریافت کرنیکا انکشاف

7864بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے مطابق، ماہرین نے کہا ہے کہ انہوں نے آنکھ کے ریٹینا میں مخصوص خلیات کو متحرک کرتے ہوئے ایک منفرد رنگ کا مشاہدہ کیا ہے جو نیلے اور سبز رنگ کے امتزاج سے ملتا جلتا ہے۔ اس رنگ کو سائنس دانوں نے ’اولو‘ (Ollo) کا نام دیا ہے، تاہم کچھ محققین اس دریافت پر مزید تحقیق کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔

یہ تحقیق یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے سائنس دانوں کی زیر قیادت کی گئی، اور اس کے نتائج ایک معتبر سائنسی جریدے میں شائع ہوئے۔ تحقیق کے شریک مصنف اور یونیورسٹی کے پروفیسر نے اسے ایک غیر معمولی پیش رفت قرار دیا اور بتایا کہ اس سے کلر بلائنڈنس (رنگوں کی تمیز سے محرومی) جیسے مسائل پر نئی تحقیق کے دروازے کھل سکتے ہیں۔

پروفیسر این جی، جو اس تجربے میں شریک پانچ افراد میں شامل تھے، نے بتایا کہ ’اولو‘ ایک ایسا رنگ ہے جو قدرتی دنیا میں دیکھے جانے والے کسی بھی رنگ سے زیادہ گہرائی اور بھرپور کیفیت رکھتا ہے۔

تجربے کے دوران، محققین نے شرکاء کی ایک آنکھ کی پتلی میں لیزر کی روشنی ڈالی۔ اس عمل میں چار مرد اور ایک خاتون شامل تھے۔

تحقیقی رپورٹ کے مطابق، یہ نیا رنگ ’او زیڈ‘ (Oz) نامی ایک جدید آلے کے ذریعے دیکھا گیا، جس میں شیشے، لیزر اور آپٹیکل پرزے استعمال کیے گئے تھے۔ یہ آلہ یو سی برکلے اور واشنگٹن یونیورسٹی کے سائنس دانوں کی مشترکہ کاوش کا نتیجہ ہے، جسے اس خاص مطالعے کے لیے اپ ڈیٹ کیا گیا۔

واضح رہے کہ ریٹینا، آنکھ کے پچھلے حصے میں موجود ایک نازک پرت ہے جو روشنی کو برقی سگنلز میں تبدیل کرکے دماغ تک پہنچاتی ہے، یوں ہم اشیاء کو دیکھنے کے قابل ہوتے ہیں۔ اس پرت میں موجود “کون خلیات” رنگوں کو پہچاننے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، جن کی تین اقسام ایس (نیلا)، ایم (سبز) اور ایل (سرخ) ہوتی ہیں، جو روشنی کی مختلف لہروں کے لیے حساس ہوتے ہیں۔

عام بصارت میں، جب ایم کون خلیہ متحرک ہوتا ہے، تو ایل یا ایس کونز بھی ساتھ ہی متحرک ہو جاتے ہیں، مگر اس تجربے میں لیزر شعاعوں نے صرف ایم کونز کو متحرک کیا، جو دماغ کو ایسا رنگ دکھاتی ہیں جو عام حالات میں ممکن نہیں۔

شرکاء نے اس نئے رنگ کو پہچاننے اور بیان کرنے کے لیے ایک خاص کلر کنٹرول ڈائل استعمال کیا اور اس عمل کے ذریعے ’اولو‘ کا مشاہدہ کیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں