پہلگام، مقبوضہ جموں و کشمیر کے معروف سیاحتی مقام پر مسلح افراد کی اندھا دھند فائرنگ سے کم از کم 26 سیاح جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، جبکہ خدشہ ہے کہ اموات میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔
بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ افسوسناک واقعہ پہلگام کے بیسرن میڈوز میں پیش آیا، جہاں تفریح کے لیے آئے ہوئے افراد پر نامعلوم حملہ آوروں نے اچانک گولیوں کی بوچھاڑ کردی اور فرار ہوگئے۔
ابتدائی اطلاعات میں پانچ افراد کی ہلاکت اور بیس کے زخمی ہونے کی خبر آئی تھی، تاہم ناقص ریسکیو اقدامات اور بروقت طبی سہولیات کی کمی کے باعث جاں بحق افراد کی تعداد بڑھ کر 26 ہو گئی۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق حملہ آوروں نے خاص طور پر تفریحی مقام پر موجود سیاحوں کو نشانہ بنایا، جبکہ واقعے کے بعد علاقے میں خوف و ہراس کی فضا پھیل گئی ہے۔
مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے اس واقعے پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ گزشتہ چند سالوں کا ایک بڑا واقعہ ہے، جس میں بے گناہ سیاحوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
رپورٹس کے مطابق واقعے سے قبل حکام نے سیاحوں کی آمد کے پیش نظر سیکیورٹی کے دعوے کیے تھے اور اضافی فورسز تعینات کی گئی تھیں، مگر اس کے باوجود یہ واقعہ سیکیورٹی کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
دوسری جانب بھارتی میڈیا نے حسب معمول اس واقعے کے فوراً بعد پاکستان کے خلاف بے بنیاد الزامات کا سلسلہ شروع کر دیا۔ را سے منسلک سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور نیوز چینلز نے بغیر کسی ثبوت کے پاکستان کو اس حملے کا ذمہ دار ٹھہرانا شروع کر دیا۔
ذرائع کے مطابق اس حملے میں مذہبی رنگ دے کر اقلیتوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تاکہ عالمی رائے عامہ کو گمراہ کیا جا سکے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت اکثر غیر ملکی رہنماؤں کے دورے یا اہم بین الاقوامی مواقع کے دوران اس قسم کے “فالس فلیگ” آپریشنز کے ذریعے عالمی توجہ ہٹانے کی کوشش کرتی ہے۔
ذرائع کے مطابق امریکی نائب صدر کے دورہ بھارت کے موقع پر اس قسم کے حملے کا واقع ہونا محض اتفاق نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہو سکتا ہے۔ اس سے قبل بھی بھارتی حکومت کئی مرتبہ سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے ایسے ڈرامے رچا چکی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج اور حکومت کی پالیسیز مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہیں، اور اب ایسے اقدامات کے ذریعے اپنی ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔