اگر یہ کہا جائے کہ آصف علی زرداری موجودہ دور کے سب سے بڑے سیاستدان ہیں تو بے جا نہ ہو گا۔ سیاست کی شطرنج پر زرداری جیسا ماہر کھلاڑی دوسرا کوئی نہیں ہے۔ وہ دھیمے مزاج اور سرد لہجے میں بہت کچھ کہہ اور کر جاتے ہیں۔ سلطان راہی ٹائپ سیاستدان محض بڑھکیں مارتے رہ جاتے ہیں جبکہ آصف زرداری عمل پر زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ حالیہ انتخابات میں بھی انہوں نے اپنے پتے نہایت ہوشیاری اور چابکدستی سے کھیلے ہیں۔ یہ انہی کا کمال ہے کہ حکومت سازی میں جثے سے زیادہ حصہ وصول کر نے کی راہ پر گامزن ہیں۔ ان کی اتحادی مسلم لیگ ن انہیں بہت کچھ دے کر بھی مزید بہت کچھ دینے کے لیے آمادہ و کوشاں ہے کہ اس کی اپنی بقا اسی میں ہے۔
پتا چلا ہے کہ ملک کی صدارت، سینٹ کی چیئرمین شپ، دو صوبوں کی گورنرشپ اور بہت سے اداروں کی چیئرمین شپ کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی اب مرکز میں وزارتیں لینے پر بھی آمادہ ہو گئی ہے۔ ہو سکتا ہے عید کے فوراً بعد اس کے ایم این ایز وفاقی کابینہ کا حصہ بن جائیں۔ اس سلسلے میں صلاح مشورے جاری ہیں۔ ایک تجویز یہ ہے کہ عید کے فوراً بعد وزارتوں کا حلف اٹھا لیا جائے جبکہ دوسری تجویز یہ ہے کہ بجٹ تک انتظار کر لیا جائے تاکہ آنے والے مشکل بجٹ کا سارا بوجھ اور ذمہ داری ن لیگ کے کھاتے میں جائے۔
یقینی طور پر پیپلز پارٹی کے متوقع وزرا ء میں بلاول بھٹو زرداری کا نام سرِفہرست آئے گا۔ وہ پہلے بھی جناب شہباز شریف کی حکومت میں 16 ماہ وزیرِ خارجہ رہ چکے ہیں۔ ان سولہ ماہ میں انہوں نے جہاں بہت سارا تجربہ حاصل کیا وہیں پر ذاتی تشہیر اور پروجیکشن پر خصوصی توجہ بھی دی۔ ان 16 ماہ کے دوران انہوں نے پاکستان میں محض چند دن ہی گزارے تھے۔ زیادہ تر وہ ملک سے باہر ہی رہے تھے۔ ظاہر ہے وہ وزیرِ خارجہ تھے۔ ان کا کام ہی خارجہ امور پر توجہ دینا تھا۔
حکومت میں وزارتِ خارجہ تین بڑی وزرتوں میں سے ایک ہوتی ہے۔ دیگر دو وزارتوں میں وازارتِ خزانہ اور وزارتِ داخلہ آتی ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کوئی چھوٹی موٹی وزارت لے کر معکوس ترقی تو یقیناً نہیں چاہیں گے۔ غالب امکان یہی ہے کہ وہ اس مرتبہ بھی وزارتِ خارجہ کا منصب لینے کے خواہشمند ہوں گے جو اس وقت ایک اور بڑے نام جناب اسحاق ڈار کے پاس ہے۔ اگر اسحاق ڈار سے وزارتِ خارجہ واپس لی جاتی ہے تو پھر انہیں کہاں ایڈجسٹ کیا جائے گا۔ یہ بھی ایک بڑا اہم سوال ہے کیونکہ وزارتِ داخلہ اس وقت جناب محسن نقوی کے پاس ہے جبکہ وزارتِ خزانہ کے عہدے پر جناب محمد اورنگ زیب براجمان ہیں۔ ان دونوں کو ان کے عہدوں سے ہٹانا موجودہ حکومت کے لیے ممکن نہیں ہے۔ ایسے میں متوقع صورتِ حال یہی ہو سکتی ہے کہ جناب اسحاق ڈار ڈپٹی وزیرِ اعظم کے عہدے پر فائز کیے جائیں گے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا اور جناب اسحاق ڈار وزارتِ خارجہ کے منصب پر ہی رہنا چاہیں گے تو پھر لامحالہ جناب بلاول بھٹو زرداری ڈپٹی وزیرِ اعظم بن جائیں گے۔ جو کہ قدرے مشکل نظر آتا ہے۔ کیونکہ ایسی صورت میں بلاول بھٹو اور ان کی پارٹی بہت زیادہ طاقتور ہو جائیں گے جو میاں نواز شریف کبھی نہیں چاہیں گے۔ سیاست میں حلیف کو حریف اور حریف کو حلیف بنتے دیر نہیں لگتی۔ صبح کے اتحادی شام کو مدِمقابل کھڑے ہوتے ہیں۔ اس لیے ممکنہ طور پر جناب اسحاق ڈار وزارتِ خارجہ کا عہدہ بلاول بھٹو کے لیے خالی کر دیں گے۔ جناب بلاول دونوں صورتوں میں ہی فائدے میں رہیں گے۔ وزیرِ خارجہ کی حیثیت میں وہ دنیا بھر میں اپنا تعارف اور امیج بہتر بنا سکیں گے۔ جو مستقبل کی پاکستانی سیاست میں ان کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہو گا۔ بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز شریف کی اب تک کی سیاسی اننگز سے واضح ہو رہا ہے کہ مستقبل کی سیاست میں یہی دو کھلاڑی سب سے بڑے اور ایک دوسرے کے حریف ہوں گے۔ پی ٹی آئی میں ان کا مدِمقابل فی الحال کوئی دوسرا نظر نہیں آتا کہ جناب عمران خان خود اپنی ذات کے ہی اسیر ہیں۔ انہوں نے اپنی پارٹی میں کسی دوسرے لیڈر کو ابھرنے ہی نہیں دیا۔ ان کی اپنی اولاد پاکستانی سیاست سے بہت دور ہے۔ جبکہ پاکستانی سیاست کا مزاج ایسا ہے کہ مقبول پارٹیاں فیملی لمیٹڈ قیادت میں ہی اپنا وجود برقرار رکھ سکتی ہیں۔ یہاں نظریات سے زیادہ شخصیات کا سحر لوگوں کو متوجہ کرنے کا باعث بنتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد بے نظیر بھٹو اور اب بے نظیر کا بیٹا بلاول بھٹو ہی جیالوں میں قابلِ قبول ہیں۔ پیپلز پارٹی سے کتنے ہی لوگ جدا ہوئے اور انہوں نے اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائی مگر وہ عوامی پذیرائی سے محروم رہے۔ مسلم لیگ ن کے معاملے میں بھی یہی صورتِ حال رہی۔ مسلم لیگ ق، مسلم لیگ جونیجو، مسلم لیگ جناح اور عوامی مسلم لیگ عوام میں پذیرائی حاصل نہ کر سکیں۔ دونوں پارٹیوں کو ان کے خاندان نے ہی سنبھالا۔ جناب آصف زرداری نے اپنی زندگی میں ہی اولاد کو گروم کر کے قومی سیاست کے اکھاڑے میں اتار دیا ہے۔ یہی کام میاں نواز شریف نے بھی کیا ہے۔ اس لحاظ سے عمران خان کے بعد پی ٹی آئی کے مستقبل پر فی الحال سوالیہ نشان ہے کہ خاندان میں ان کا سیاسی جانشین کوئی نہیں ہے۔
بات ہو رہی تھی پیپلز پارٹی کی وفاقی کابینہ میں شمولیت کی۔ دیکھا جائے تو اس پارٹی نے حالیہ انتخابات میں بہت کچھ حاصل کر لیا ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق تو مسلم لیگ ن نے بہت کچھ کھویا اور پیپلز پارٹی نے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ غور کیا جائے تو ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ مسلم لیگ ن کو مرکز میں حکومت مل گئی ہے۔ سب سے بڑے صوبے پر اس کا راج ہے۔ صرف یہی ایک صوبہ مستقبل میں اسے دوبارہ اقتدار دلا سکتا ہے۔ ان کا سب سے بڑا حریف جیل کے اندر ہے۔ ورنہ یہ بھی تو ممکن تھا کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد کر کے پی ٹی آئی حکومت بنا لیتی اور مسلم لیگ ن کی لیڈرشپ آج مقدمات اور گرفتاریوں کا سامنا کر رہی ہوتی۔ اس لیے یہ کہنا بیجا نہیں کہ دونوں پارٹیاں ہی اس وقت فائدے میں ہیں۔