شہر کے حسن کی تباہی اور کارپوریشن

تحریر: افتخار علی بٹ
گوجرانوالہ کا حسن تباہ کرنے میں جہاں شہریوں یعنی اشرافیہ کا کردار ہے وہیں کارپوریشن گوجرانوالہ نے بڑی جانفشانی سے اہم رول پلے کیا ہے ۔ان کی جانب سے ہسپتال مالکان پلازوں،دکانوں،ہوٹلز،مارکیٹ مارلکان کو فری ہینڈ دیا جاتا ہے کہ وہ جہاں جو مرضی بنا دیں بغیر نقشہ بغیر پارکنگ اور بغیر این او سی جس کا جو دل کیا تعمیر کر دیا رہی سہی کسر “استاد محترم” نے اسکولوں کی تعمیر کی تو انہوں نے بھی بچوں کو سکولوں میں مستقبل کے معماروں کو اپنے عمل سے پہلا درس یہ دیا کہ بیٹا طاقت کے بل بوتے پر اس ریاست کے ہر قانون کو اپنے پیروں تلے روندنا ہے ۔گوجرانوالہ کے سیاسی رہنماؤں نے تعمیر و ترقی کی طرف کم جبکہ اپنے سپورٹرز کو اداروں میں بدمعاشی پر زیادہ اکسایا ہے، جس کا نتیجہ گوجرانوالہ کی سڑکوں پر بے ہنگم ٹریفک کی صورت میں آپ کو دکھائی دیتاہے ۔اگر بات کریں اندرون شہر منیر چوک کی تو وہاں پر ہر وقت رش سے ڈسٹرکٹ ہسپتال گوجرانوالہ پہنچنے کے لیے بعض اوقات ایک دو گھنٹے تاخیر سے پہنچا جا سکتا ہے ،کسی بھی پلازہ میڈیکل سٹور دیگر دکاندار اور پرائیویٹ ہسپتالوں نے پارکنگ نہیں چھوڑی یہ اپنے سامنے سے گزرنے والی سڑکوں کو ہی پارکنگ کے طور پر استعمال کرتے ہیں ،بلکہ بعض اوقات ہسپتالوں کے باہر پرائیویٹ افراد نے غیر قانونی پارکنگ سڑک پر ہی قائم کر رکھی ہیں اور روزانہ شہریوں سے لاکھوں روپے اکٹھے کر کے گھروں کو لے جاتے ہیں اگر منیر چوک کے قرب و جوار کی بات کریں تو یہاں سے ایک سڑک جم خانہ کلب اور سی پی او آفس، سنٹرل جیل اور ڈی سی افس کی طرف جاتی ہے ،جبکہ دوسری سڑک ضلع کچہری، اینٹی کرپشن ، ایکسائز آفس رجسٹری برانچ کی طرف جاتی ہے جبکہ تیسری روڈ سول ہسپتال، سرکٹ ہاؤس ،کمشنر آفس ،ای ڈی او ہیلتھ اور آر پی او افس کی طرف جاتی ہے ۔ جبکہ چوتھا لنک ریلوے اسٹیشن پاسپورٹ آفس اور جی ٹی روڈ سے جا ملتا ہے یہاں راستے میں پھاٹک بند ہونے کی وجہ سے بھی اکثر شہریوں کو مشکلات کا سامنا رہتا ہے یہاں کسی بھی غیر قانونی تعمیر اور بغیر پارکنگ کے عالی شان پلازوں کو دیکھ کر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے اور میٹرو پولیٹن کارپوریشن کو
داد دینے پر مجبور ہو جاتا ہے ، یہاں اس قدر طاقتور لوگوں نے بلڈنگز بغیر پارکنگ تعمیر کی ہیں کہ ایک بار تو ڈی سی گوجرانوالہ اپنے دفتر کے سامنے بغیر پارکنگ ہسپتال کی بلڈنگ تعمیر ہونے پر بڑے سیخ پا ہوئے تو ڈی سی صاحب نے بلڈنگ کی تعمیر روکنے یعنی پارکنگ رکھوانے کے لیے “ایڑی چوٹی” کا زور لگایا مگر ڈی سی صاحب بے بسی کی تصویر بنے سب دیکھتے رہے اور بلڈنگ بغیر پارکنگ مکمل ہوگی جبکہ اس بلڈنگ کے بالکل ساتھ دوسرے ہسپتال کی بلڈنگ دوسری غیرقانونی بلڈنگ سے 20 فٹ پیچھے ہے ، ادھر پیپلز کالونی اور قلعہ چندا کی طرف چلے جائیں تو 70 فیصد سے بھی زیادہ بلڈنگز بغیر نقشہ بغیر این او سی اور بغیر کمرشلائزیشن تعمیر کی گئی ہیں ۔ راولپنڈی سے لاہور کی جانب جاتے ہوئے اوور ہیڈ برج کے اوپر جانب مشرق ایک پلازہ تعمیر کیا گیا ہے اس پلازے کے مالک کو متعدد بار کارپوریشن نے نوٹسز بھیجے اور بلڈنگ کو سیل بھی کیا گیا اس کے باوجود پلازہ مالک کی جانب سے ایک “انچ” بھی پارکنگ نہیں چھوڑی گئی اب وہ بلڈنگ ریاستی اداروں کو منہ “چڑا” رہی ہے جناح روڈ سے گزرنے کے لیے 10 فٹ جگہ نہیں ہے معافی والا چوک نزد سیالکوٹ بائی پاس سمیت سیٹلائٹ ٹاؤن کی شفاف انکوائری ہو تو اربوں روپے حکومت کو ریونیو اکٹھا ہو سکتا ہے رہائشی علاقوں میں کمرشل بلڈنگ کی تعمیر کروا دی گئی ہے پلازے دکانیں مارکیٹیں اور ہسپتال تعمیر ہو چکے ہیں۔ اور تو اور اگر بات کریں ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی تو گارڈن ٹاؤن، گرین ویلی، پام سٹی ، ماسٹر سٹی، شارجہ سٹی، اجوا سٹی، جی مگنولیا اور دیگر نے بھی جی ڈی اے کی ملکیتی رقبہ میں مارکی،پلازےبنا دیےہیں۔ محکمہ انہار کی جگہوں پر مبینہ طور پر غیر قانونی پل بنا دیے گئے ہیں البتہ اس سے شہر کے حسن میں اضافہ ہوا ہے مگر ریاستی قوانین ناپید ہو چکے ہیں ۔ بغیر این او سی بغیر نقشہ اور بغیر کمرشلائزیشن تعمیرات کی گرومنگ مشروم کی طرح ہو رہی ہے ، سی او حیدر علی چٹھہ اور بلڈنگ انسپیکٹر سبحان نے کیسے “آنکھیں بند” کر رکھی ہیں یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ یہ افراد نوٹسز اور بلڈنگ کو سیل کرنے کے بعد مالکان کو بلیک میل کر کے ان سے رشوت لے کر غیر قانونی تعمیرات کروا رہے ہیں ضرور یہ لوگ سیاسی دباؤ کی وجہ سے ہر جگہ ایسے تعمیرات کروانے پر مجبور ہیں حکومت کو انہیں گھر رخصت کر دینا چاہیے کیونکہ یہ قومی خزانے پر بوجھ ہیں غیر قانونی تعمیرات روکنا ان کے بس کی بات نہیں۔اس صورتحال میں نگاہیں ایڈمنسٹریٹر میونسپل کارپوریشن و کمشنر گوجرانوالہ نوید حیدر شیرازی اور وزیراعلی پنجاب مریم نواز شریف کی طرف اٹھتی ہیں کہ متعلقہ علاقوں میں غیر قانونی طور پر تعمیر بلڈنگ پر ایک اعلی سطحی کمیٹی تشکیل دے کر شفاف انکوائری کروائی جائے تاکہ ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے خزانے میں اربوں روپے جمع کئے جا سکیں ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں