لندن: سابق برطانوی چیف جسٹس سمیت 600 سے زائد وکلا، ججز اور قانونی ماہرین نے اپنی حکومت پر اسرائیل کو اسلحے کی فروخت بند کرنے کےلیے زور دیا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق قانونی شعبے سے تعلق رکھنے والے 600 سے زائد ججز اور بیرسٹرز نے وزیراعظم رشی سونک کو لکھے گئے 17 صفحات پر مشتمل خط میں کہا کہ اگر برطانیہ کی حکومت نے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فروخت نہ روکی تو اس کے نتیجے میں برطانیہ خود بھی غزہ میں نسل کشی کا مرتکب قرار پائے گا۔
انہوں نے لکھا کہ “اسرائیل کو فوجی امداد کی فراہمی کے نتیجے میں نہ صرف برطانیہ نسل کشی میں ملوث قرار پائے گا بلکہ بین الاقوامی انسانی قانون کی سنگین خلاف ورزیوں کا مرتکب بھی ٹہھرے گا۔
اگرچہ برطانیہ سے زیادہ امریکا ، جرمنی اور اٹلی اسرائیل کو اسلحہ فروخت کرنے والے بڑے ممالک ہیں لیکن اگر برطانیہ پابندی لگادے تو اس سے اسرائیل پر سفارتی و سیاسی دباؤ میں اضافہ ہوگا۔
خط لکھنے والوں میں سابق برطانوی چیف جسٹس لیڈی ہیل سمیت سپریم کورٹ کے تین ریٹائرڈ ججز شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ برطانوی حکومت اسرائیل کے ساتھ موجودہ تجارتی معاہدے پر نظرثانی کرے، باہمی تعلقات کے روڈ میپ 2030 کو معطل کرے، اور ان اسرائیلی شخصیات پر پابندیاں عائد کرے جنہوں نے فلسطینیوں کی نسل کشی پر اکسانے والے بیانات دیے ہیں۔
سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس لارڈ سمپشن نے بی بی سی کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے کہا کہ “ہمارا فرض ہے نسل کشی کو روکیں اور جو کچھ ہمارے بس میں وہ ہمیں کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی جنگی قانون کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ممالک جیسا چاہیں کارروائی کر سکتے ہیں، اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ معصوم شہریوں اور بچوں کو اندھا دھند ذبح کر سکتے ہیں اور امدادی قافلوں پر حملہ کر سکتے ہیں، امدادی کارکنوں کے ویزے واپس لے سکتے ہیں اور دو ہفتے تک اسپتالوں کو نیست و نابود کرسکتے ہیں، نہیں ایسا ہرگز نہیں بلکہ آپ کی حدود و قیود ہیں۔
خط میں فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی، انروا کی فنڈنگ بحال کرنے، اسرائیل کے ساتھ جاری سفارتی اور “بہتر تجارتی معاہدے” کے مذاکرات کو معطل کرنے، اسرائیل سے موجودہ تجارتی معاہدے کو معطل کرنے اور اسرائیل پر “پابندیوں کے نفاذ پر غور” کرنے کی سفارشات پیش کی گئیں۔