(تحریر: اعجاز چیمہ)
رات کی تاریکی میں بلوچستان کو ایک بار پھر لہولہان کردیا گیا، کوئٹہ سے پنجاب کیلئے روانہ ہونے والی بسوں کو قومی شاہراہ پر سرہ ڈاکئی کے مقام پر روکا گیا، مسافروں کے شناختی کارڈ دیکھے گئے، پنجابی پنچھیوں کی نشاندہی ہوئی اور پھر گولیاں چلا دی گئیں اور نو جیتے جاگتے انسان لاشوں میں تبدیل ہوگئے۔ یہ کوئی جنگ نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک کھلی دہشت گردی ہے جس میں فتنۂ ہندوستان کے قصابوں نے پاکستان کے اندر معصوم پاکستانیوں کو بے دردی کے ساتھ ذبح کیا ہے۔ آج ہر شہید کے گھر سے اٹھنے والا سوال یہی ہے کہ آخر ہم کب تک لاشیں اٹھاتے رہیں گے؟ آخر کب تک؟
عثمان اور جابر نام کے دو بھائی جو اپنے والد کے جنازے میں شامل ہونے کیلئے کوئٹہ سے لودھراں جا رہے تھے، باپ کو لحد میں اتارنے سے پہلے ان کے اپنے جنازے آبائی گاؤں پہنچ گئے۔ کیا یہی وہ پاکستان ہے جس کا خواب اقبال نے دیکھا تھا؟ کیا یہی وہ پاکستان ہے جس کی آس میں لاکھوں لوگ ہجرت کرکے اس سرزمین پر پہنچے تھے؟
یہ کوئی پہلا یا نیا سانحہ نہیں ہے۔ بلوچستان کی پہاڑیوں میں، خضدار کے اسکولوں میں اور مستونگ کی وادیوں میں الغرض ہر جگہ ایک ہی کہانی دہرائی جارہی ہے۔ دہشت گرد آتے ہیں، قتل کرتے ہیں اور رات کی تاریکی میں غائب ہو جاتے ہیں۔ سیکیورٹی فورسز فوری پہنچتی ہیں، “بھرپور آپریشن” کا اعلان ہوتا ہے مگر قاتل فرار ہو جاتے ہیں اور پھر ایک نئے سانحے کا انتظار شروع ہوجاتا ہے۔ کیا یہ ایک منظم کھیل نہیں ہے جس میں قاتل اور بھگوڑے ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں؟
فتنۂ ہندوستان صرف ایک نام نہیں۔ یہ ایک ایسی عفریت ہے جس کے پنجے بھارت کی راجدھانی سے نکل کر پاکستان کے دل تک پھیل گئے ہیں۔ سرہ ڈاکئی، قلات اور پھر مستونگ یعنی ایک ہی رات تین حملے۔ یہ کوئی مزاق نہیں ہے، یہ کوئی اتفاق بھی نہیں بلکہ یہ ایک سوچی سمجھی اسکیم ہے جس کا مقصد ہے پاکستانی قوم کو نسلی خطوط میں تقسیم کرنا ہے، جس کا مقصد پنجابی، بلوچی، پٹھان اور سندھی کے درمیان نفرت کی ناقابل عبور دیوار کھڑی کرنا ہے اور جس کا بنیادی مقصد ریاست پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کرنا ہے۔
ایسے سفاکانہ واقعات میں جب دہشت گرد مسافروں کے شناختی کارڈ چیک کرتے ہیں تو وہ صرف پنجابی نہیں ڈھونڈ رہے ہوتے بلکہ درحقیقت وہ پاکستان کی اکائی کا گلا گھونٹ رہے ہوتے ہیں۔
متاثرہ بسوں کے ڈرائیورز کا کہنا ہے کہ انہوں نے لورالائی پہنچتے ہی انتظامیہ کو خبردار کیا، فورسز فوری پہنچیں اور انہوں نے تعاقب بھی کیا مگر دہشت گرد رات کی تاریکی میں فرار ہوگئے۔ آخر “فرار” ہونے والا جملہ ہر رپورٹ کا حتمی نتیجہ کیوں بنتا ہے؟ کیا ہمارے پاس جدید ترین ڈرونز، سیٹلائٹ ٹریکنگ یا رات میں دیکھنے والے آلات نہیں؟ یا پھر یہ کہ ہماری حکمت عملی ہی ناکام ہے؟ جب دشمن کو معلوم ہو کہ وہ “تعاقب” کے بعد بھی بچ نکلے گا تو وہ کیوں نہ حملہ کرے گا؟ ہمیں دہشت گردوں کا یہ اعتماد توڑنا ہوگا۔
عوام کا سوال بجا ہے کہ آخر اس خونی کھیل کا اختتام کیوں نہیں ہوتا؟ کیا ہم ڈرتے ہیں؟ کیا ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے؟ یا پھر ہماری سیاسی منشا ہی نہیں ہے؟ یا پھر یہ کہ دہشت گردی ایک دھندہ بن چکی ہے؟ جس میں کچھ کے مفاد دشمن کے مفاد سے مل گئے ہیں؟
حکومت کہتی ہے کہ دشمن کو عبرتناک انجام تک پہنچایا جائے گا مگر سوال یہ ہے کہ یہ “عبرتناک انجام” آخر کب آئے گا؟ یاد رکھیں کہ جب تک بلوچستان کی پہاڑیوں میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں محفوظ رہیں گی اور جب تک سرحد پار سے انہیں فنڈنگ ہوتی رہے گی اور تربیت جاری رہے گی، تب تک معصوم شہریوں کے لہو بہانے کا یہ سلسلہ نہیں رُکے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ان واقعات کے پیچھے ملک دشمن عناصر خصوصا” بھارت کا کیا دھرا ہے۔ اور پاکستان کے ساتھ حالیہ جنگ میں بھارت عبرتناک شکست کھانے کے بعد زخم خوردہ ہو چکا ہے۔ اور وہ سمجھ گیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ براہ راست جنگ اس کے بس کی بات نہیں تو اس نے اپنی ہزیمت کا بدلہ لینے کیلئے پہلے سے جاری پراکسیز کو تیز کر دیا ہے۔ لہٰذا اب وقت آگیا ہے ہے کہ اس محاذ پر بھی گوں مگوں کی کیفیت سے نکل کر مضبوط حکمت عملی اپنائی جائے ۔
بھارت میں دہشت گردی کا ایک واقعہ پیش آتا ہے اور وہ اس کو بنیاد بناکر بغیر ثبوتوں کے پاکستان پر چڑھ دوڑتا ہے، لیکن پاکستانی یہاں روزانہ لاشیں اٹھاتے ہیں اور ہم صرف دعوے کرتے رہ جاتے ہیں۔ آخر یہ رویہ کب تک جاری رہے گا؟
بھارت کے خلاف عالمی فورمز پر ثبوت پیش کریں، اقوام متحدہ میں سفارتی جنگ لڑیں، مقامی قبائل کو اعتماد میں لے کر بلوچستان میں دشمن کے نیٹ ورکس کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکیں، جدید جنگی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے دہشت گردوں کا ڈرونز، مصنوعی ذہانت اور سائبر وار فیئر کے ذریعے تعاقب کریں اور اس کے ساتھ ساتھ عوامی بیداری پر بھی کام کریں، نفرت کی سیاست ختم کرکے قوم کو متحد کریں اور شہیدوں کی کہانیوں کو نصاب کا حصہ بنائیں۔ ہم آخر ایسا کیوں نہیں کرتے؟ یہ وہ سوال ہے جو آج ہر پاکستانی پوچھ رہا ہے۔
دشمن ہمارے گھروں تک پہنچ گیا ہے اور ہم آخر کب تک خاموش بیٹھیں گے؟
اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان بھی اپنی حتمی جنگ لڑے اور پوری دلیری کے ساتھ لڑے۔ نہ صرف سیکیورٹی فورسز بلکہ ہر پاکستانی اس محاذ پر کھڑا ہو۔ جب تک سرہ ڈاکئی کے شہیدوں کا خون زمین پر سوال بن کر چمکتا رہے گا، تب تک ہماری خاموشی ہماری بے غیرتی کی دستاویز بنی رہے گی۔











