90دن کی تحریک، مارو یا مر جاؤ،ذلفی بخاری کی امریکہ یاترا

(تحریر:امیر محمد خان)

لگتا ہے پی ٹی آئی اور دوسری جانب حکومت دونوں ہی نے عوام کو امتحان میں ڈالنے کا مقابلہ جاری رکھا ہوا ہے، حکومت امتحان لے رہی ہے عوام کی جیبوں کو خالی کرکے مہنگائی کے ذریعے اور دوسری جانب پی ٹی آئی جو دعوی کرتی ہے کہ عوام اسکے ساتھ ہیں جبکہ اسکی لیڈر شپ جو باہربیٹھی 9مرتبہ عوام کو احتجاج کی کال دے رہی ہے جبکہ وہ خود آپس میں متحد نہیں، پہلے دہشت گرد پیٹرول بم مارتے تھے اب حکومت پیٹرول کی ہوشرباء ہر دس پندرہ دن میں قیمتیں بڑھا کر یہ خدمت انجام دے رہی ہے جب ڈیزل بڑھتا ہے تو اشیائے ضرورت کی خاص طور پر کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں بڑھنا لازمی ہیں چونکہ مال براداری کے ٹرک، ٹریلے ڈیزل ہی استعمال کرتے ہیں جس سے ٹرک مالکا ن کو کوئی نقصان نہیں اسکا نقصان بھی عوام بازارسے مہنگی اشیاء خرید کر انکا نقصان پورا کردیتے ہیں پر صورت میں عوام ہی پستے ہیں،پی ٹی آئی یا یا اسکے متنازعہ لیڈر علی امین گنڈہ پور جنکے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ بانی کے پر اعتماد ساتھی ہیں مگرجماعت کی وکلاء لیڈر شپ سلمان اکرم راجہ، بریسٹرعلی ظفر و دیگر گنڈہ پور کے اعلان کردہ بقول انکے جہاد کو نہیں مانتے، وہ ہر دو ماہ بعد اعلان کردیتے ہی کہ”گولی مارو گے، ہم بھی گولی مارینگے“وغیرہ وغیرہ، سرحد کے معصوم عوام جن میں ٹی ٹی پی، اور افغان غیرملکی بھی شامل ہوتے ہیں انکے ساتھ چل پڑتے ہیں، قانون ہاتھ میں لینے کے جرم میں عوام گرفتار ہوجاتے ہیں انکے بچے،اہل خانہ انکی راہ تکتے رہتے ہیں جبکہ لیڈر شپ بشمول امین گنڈہ پور منظر سے غائب ہوجاتے ہیں اب انہوں نے اعلان کیا کہ پی ٹی آئی پارٹی کی مستقبل کی سمت کا تعین کرنے کے لیے فیصلہ کن 90 روزہ احتجاجی مہم کا آغاز کرے گی- ”90 دنوں کے اندر، ہم فیصلہ کریں گے کہ سیاست کرنی ہے یا نہیں؛اس احتجاجی تحریک کو انہوں نے ”کرو یا مرو“ کا نام دیا ہے اس عقل سے عاری اعلان پر باہر بیٹھی لیڈر شپ نالاں ہے، باہر بیٹھی وکلاء لیڈر شپ تو بانی کے احکامات کو بھی ماننے کو تیار نہیں، عالیہ حمزہ کو بانی نے چیف آرگنائزر بنایا، اور باہر بیٹھی وکلاء قیادت نے انہیں اجلاس میں نہیں بلایا اور سلمان اکرم نے راجہ نے عالیہ حمزہ کے متعلق جو زبان استعمال کی اس پر دیگر رہنماء ان پر تنقید کررہے ہیں،وکلاء قیادت کے 90والے اعلان سے نالاں ہیں خاص طور پر
گنڈا پور کا اعلان کہ کہ تحریک کا مقصد عمران خان کی رہائی کو یقینی بنانے کے لیے اس مدت کے اندر ”فیصلہ کن اقدام” کرنا ہے۔ انہوں نے سخت الٹی میٹم دیا: ”90 ویں دن، پی ٹی آئی کے بانی ہمارے ساتھ ہوں گے، اگر آپ نے ہم پر گولی چلائی تو یاد رکھیں کہ آپ کو بھی گولیوں کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے، اگر پی ٹی آئی کے بانی کو 90 دنوں میں رہا نہ کیا گیا تو آپ یا ہم یہاں نہیں ہوں گے”۔یہ کونسی احتجاجی تحریک ہے جس میں گولیاں چلانے کا اعلان کی جارہا ہے؟؟؟ حکومت خاموش! چونکہ حکومت کو پتہ ہے ایسا کچھ نہیں ہوگا بس جیل میں مزید گنجائش پیدا کرنی ہوگی 90دن کے اعلان کی مخالفت وکلاء قیادت کی سمجھ میں آتی ہے کہ ”یہ شخص 90دن کے بعد کیوں ہماری روزی روٹی کو بند کرانا چاہتاہے چونکہ ان وکلاء کے دفاتر بانی کے مقدمات سے ملنے والی فیسوں سے ہیں چل رہے ہیں مگر وزیر اعلی سرحد کیوں معصوم عوام کو جیل کا ایندھن بنانا چاہ رہے ہیں؟؟ہوسکتا ہے کسی نے کہاہو کہ کون کون باقی ہے؟؟ بیرون ملک بھی پی ٹی آئی کے چاہنے والے متحد ہورہے ہیں
یورپ امریکہ میں کوئی مسئلہ نہیں خلیجی ممالک میں جہان سیاست کی اجازت نہیں وہاں دیگر بہانوں سے تقریبات سے اندازہ ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کا نام نہیں لیتے مگر رابطوں کا ذریعہ وہ تقریبات ہوتی ہیں بیرون ملک قونصل خانے خا ب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔ سیاسی سوچ رکھنا کئی بری بات نہیں یہ ہر انسان کا حق مگر بیرون ملک بیٹھ کر سیاست، اور مدینہ جیسے واقعات کرنا کونسی سیاست کا حصہ ہے؟؟ ، اب شوشا چھوڑا گیا ہے کہ بانی کے سابق معاون بیرون ملک بھاگے ہوئے ذولفقار بخاری جوبانی کے دوران حکومت وزیر سمندر پار پاکستانی رہے ہیں اور خلیج، سعودی عرب جہاں لاکھوں پاکستانی جو پاکستان کی معیشت کو سہارہ دئے ہوئے ہیں وہاں انہوں نے دوران وزارت ایک گھنٹہ کا بھی دورہ نہیں کیا تھا، اب وہ بقول انکے امریکی کانگریس کے انسانی حقوق کمیشن کے سامنے پاکستان میں ہونے والے سیاسی جبر کے بارے میں آگاہ کرینگے یہ موصوف کی بڑی غلط فہمی ہے امریکہ میں ایک تجربہ کار، محب وطن سفیر رضوان شیخ کی امریکی کانگریس کے انسانی حقوق کے اراکین کی پندرہ منٹ کی ملاقا ت متنازعہ سیاسی جبر کی ”واٹ“ لگادیگی، ذولفقار بخاری عرف ذلفی کے اس وقت امریکی کانگریس کے انسانی حقوق کمیشن سے رجوع کرنے میں بھی ایک تکلیف دہ ستم ظریفی ہے۔ یہ وہی ادارہ ہے جس کی حکومت غزہ پر اسرائیل کے وحشیانہ حملے کی حمایت اور مسلح کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی ہی یونیورسٹیوں اور شہروں میں اختلاف رائے اور مظاہروں کو پرتشدد طریقے سے کریک ڈاؤن کر رہی ہے۔ انسانی حقوق کے بارے میں منصفانہ فیصلے کے لیے ایسے ادارے کی طرف دیکھنا کا عمل کوئی پلے بوائے ہی کرسکتا ہے زلفی ضرور ملیں جبکہ بانی کی ہمشیرہ کا الزام ہے کہ کوئی زلفی بخاری کو لیڈری کی تیاری کرا رہا ہے،واللہ و علم امریکہ کے ہر ادارے کے پاس تحریک انصاف کی حکومت کے دوران پاکستان میں جو کرپشن ہوئی، عدلیہ ، میڈیا او ر بیوروکریسی کے متواتر جھڑ پیں، عدم برداشت اپنے عروج پر ایک جابر حکمران کی طرح کسی کو نہ ماننا سب کو چور کے القاب سے نوازنا،وزارتوں کے درمیان ناقص ہم آہنگی، غیر منتخب مشیروں پر زیادہ انحصار کا الزام۔کرپشن کے حوالے سے، عمران خان پر کے پی میں ذاتی سفر کے لیے سرکاری ہیلی کاپٹر استعمال کرنے کا الزام، مشہور شوگر اور گندم سکینڈل،ادویات کی قیمتوں میں اضافے کا سکینڈل،مشہور ترین توشہ خانہ کیس یہ الزام کہ عمران خان نے مہنگے سرکاری تحائف (جیسے گھڑیاں) کم قیمت پر خریدے اور منافع کے لیے بیچے۔بعد میں ایک قانونی مقدمہ بن گیا، جس کے نتیجے میں الیکشن کمیشن نے انہیں عوامی عہدے سے نااہل قرار دیا۔، القادر ٹرسٹ/ملک ریاض سکینڈل، الزامات کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ نے ریئل اسٹیٹ ٹائیکون ملک ریاض کے خلاف یوکے منی لانڈرنگ کیس کو سلجھانے کے عوض ان کے اعتماد کے لیے اربوں کی زمین/جائیداد کے عطیات حاصل کیے۔بشریٰ بی بی کی قریبی ساتھی فرح گوگی کو ایک اہم درمیانی شخص کے طور پر ملوث کیا گیا۔ مہنگے تحائف، بشمول ہیرے کے زیورات، مبینہ طور پر بشریٰ کے پاس گئے۔اسطرح کے بے شمار الزامات اور حقیقتوں کے بعد ”کعبے کس منہ جاؤگے غالب“ اور اب تو نہ جانے کن مصلحتوں کی بناء جو مراعات حکومت بانی صاحب کو جیل میں دے رہی ہو ایک ریکارڈ ہے، جیل کی B کلاس میں تحریک آزادی صحافت کے دوران میں نے بھی چار ماہ گزارے تھے وہاں تو صرف خدمت گار تھے بانی صاحب کو تو LEDِ اخبارات ، روز ملاقاتیں، X پر بیان بازی، حکومت ہتاؤ، مسلح افواج سے براہ راست بات کرنے کی خواہشات پارٹی کے اندرونی جھگڑوں کو نمٹانے کیلئے اجلاس سب ہی تو مل رہے ہیں پھر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا کیا الزام؟؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں