پیرا فورس اور خدشات

تحریر: شاہد محمود
پنجاب میں نئے محکمے بنانے کا سلسلہ جاری ہے اور ماحول کے محکمے کے بعد کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ (سی سی ڈی) کے چرچے تھے کہ ساتھ ہی گزشتہ روز وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے پیرا کے نام سے ایک اور ایجنسی کا افتتاح کردیا ہے ۔ اس طرح کے محکمے پہلے سے بھی موجود ہیں اس کے باوجود نئے محکمے بنانے کا مقصد یقینیا یہی ہے کہ پہلے سے موجود ادارے اور محکمے کام نہیں کررہے ہیں۔ کرائم کنٹرول ایجنسی کے سربراہ سہیل ظفر چٹھہ پہلے بھی اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ تھے لیکن کرپشن کا عفریت صوبے میں بڑھا ہے کم نہیں ہوا اور اس کے علاؤہ پولیس سمیت دہشتگردی کے خلاف بھی فورس (سی ٹی ڈی) موجود ہے اور ملک میں بے شمار محکمے اور ادارے کام کررہے ہیں۔ جن پر قوم کے اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں اور ان کے افسران کے لئے قیمتی گاڑیاں، مفت پٹرول ، مفت بجلی اور عالیشان گھر اور دفاتر تعمیر ہوتے ہیں لیکن پھر بھی ہمارا معاشرہ لاقانونیت کا شکار ہے اور قانون کو نافذ کرنے والے ہی قانون کو توڑنے کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ پیرا فورس بھی اسی طرح کی ایک ایجنسی ہوگی اور اس کا بنیادی کام قیمتوں کا کنٹرول ، اشیا ئےضرورت کی مصنوعی قلت کو روکنا اور قبضہ مافیا سمیت تجاوزات کیخلاف کاروائی کرنا گا۔ بدقسمتی ہے کہ کرائم کو کنٹرول کرنے اور مہنگائی کا قلع قمع کرنے اور تجاوزات کھڑی کرنے والے سارے افراد خود حکومتی محکموں میں موجود ہی اور یہ سارے غیر قانونی کام خود سرکار کے کارندے کرواتے ہیں اس لئے جب تک ان افراد کے گرد شکنجہ سخت نہیں کیا جاتا ہے تو کسی بھی فورس کے بننے یا نہ بننے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ چند ماہ پہلے انوائرمنٹ پروٹیکشن فورس بھی بنائی گئی تھی اور اس محکمے کی عالیشان گاڑیاں سڑکوں پر دوڑتی نظر آنے لگی تھیں اور مین سڑکوں کے کنارے تعمیرات پر اس محکمے کے بڑی فلیکس بھی لگ گئی تھیں اور ماحولیات کے ایس او پیز پر عمل کے سرٹیفکیٹ چسپاں ہو گئے تھے لیکن ان کی عمارتوں کے سامنے کئی کلومیٹر تک واسا کے گہرے گڑھے پڑے ہوئے تھے جہاں مٹی اور گرد سے پورا علاقہ آج بھی اٹا پڑا ہے لیکن کسی ماحولیات کے محکمے نے اس کے خلاف کاروائی نہیں کی ہے کیونکہ سامنے بھی سرکار کا ہی محکمہ ہے اور سارے سرکاری لوگ ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف کاروائی نہیں کرتے ہیں تو پھر ان تمام محکموں اور ایجنسیوں، فورسز کا نشانہ عام آدمی ہی بنے گا اور سڑک پر چلتے ہوئے لوگ اور ٹھیلوں پر سبزی لگانے والے اٹھائے جائیں گے۔ کچھ عرصہ پہلے مجھے ایف بی آر کے ایک دوست نے بتایا کہ لاہور کی ہی ایک مارکیٹ سے ٹیکس کولیکشن کا ٹارگٹ پورا نہیں ہوا تو دکانوں پر چھاپے شروع ہوگئے جس پر میں نے دوست کو کہا کہ سرکار کے سارے محکموں کے کام الٹے ہیں کیونکہ آپ کسٹمر کو تنگ کرتے ہیں جبکہ اسی علاقہ کے ذمہ دار افسر کو الٹا لٹکا دیں تو مسائل حل نہ ہوں تو بتائیے گا تو اس دوست نے ہنس کر کہا کہ سرکاری ملازم کو جو تحفظ حاصل ہے وہ تو شاید بادشاہوں کے درباروں میں وزیر اعظم کو بھی حاصل نہیں تھا اس لئے ان کے خلاف کچھ ہو نہیں سکتا۔ مجھے لیسکو اور سوئی ناردرن گیس کے ذمہ داران نے بتایا ہے کہ ان کے سب سے بڑے نادہندہ سرکاری محکمے ہیں جن کے نقصانات عام آدمی سے پورے ہوتے ہیں۔ پچھلے دنوں لیسکو نے ایک سرکاری محکمے کی عدم ادائیگی پر بجلی کاٹی تو اگلے ہی دن لیسکو کا دفتر پراپرٹی ٹیکس کی عدم ادائیگی پر سیل ہو گیا اور یہی وہ سارے دہندے ہیں جن کی وجہ سے آخر میں سارا نزلہ عوام پر گرتا ہے۔ اس وقت ویسے بھی واپڈا کی کمپنیاں حکمرانوں کی آنکھ کا تارا ہیں کیونکہ یہ کمپنیاں حکمرانوں اور اشرافیہ کو مفت بجلی فراہم کرنے کے بعد بھی اپنی مجموعی بجلی کی ترسیل سے تین گنا زیادہ بجلی کے بل غریب عوام سے وصول کرکے حکمرانوں کو پالتی ہیں ۔ چند دن پہلے میرا اپنے ایک دوست کے ساتھ فوڈ اتھارٹی کے دفتر جانے کا اتفاق ہوا اور ہمیں ڈی جی فوڈ سے ملاقات کرنا تھی۔ وہاں جاکر آنکھیں ششدر رہ گئیں کہ دفتر کے لان میں درجنوں ڈالے اور کروڑوں روپے کی سرکاری گاڑیاں کھڑی تھیں اور یہ وہ گاڑیاں تھیں جن کا خیال اچھے بھلے کاروباری افراد کے ذہن میں بھی نہیں آتا ہے جس پر میرے صحافی دوست نے برملا ڈی جی آفس میں کہا کہ ایسی شاندار گاڑیاں چلانے والوں سے خیر کی امید نہیں رکھی جا سکتی ہے۔ بہرحال بات پیرا کی ہو رہی تھی تو یقین جانئیے مجھے اس نئی ایجنسی سے کوئی امید نہیں ہے کیونکہ جس ملک میں خود حکومتیں عوام کو بجلی، پٹرول سمیت اکثر سہولیات مہنگے داموں فروخت کرتی ہوں وہاں پر لوگوں کو مہنگائی کرنے سے کون روکے گا۔ کیا پیرا کا محکمہ لیسکو کو کٹہرے میں لائے گا جو عوام سے اضافی بل وصول کرتا ہے یا ایل ڈی اے کا احتساب کرے گا جس کے افسران نے پورے شہر میں تجاوزات کے انبار لگا دئیے ہیں۔ میرا ایل ڈی اے کے افسران سے اکثر واسطہ پڑتا ہے یقین جانئیے یہ لوگ اپنی قیمت وصول کرکے شہروں کو کچرے کے ڈھیر بنارہے ہیں اور تو اور کسی بھی شہری کی شکایت کرنے پر یہی ایل ڈی اے افسران قبضہ مافیا کو شکایت لگاتے ہیں کہ ہمارا منہ تو رشوت کے پیسوں نے بند کردیا ہے لیکن فلاں شخص افسران بالا کو آپ کے خلاف بھڑکا رہا ہے اس لئے اس کو مینیج کرلیں۔ میں نے خود ایک بار ایم ڈی واسا کو کسی غیر قانونی فلٹر پلانٹ کی شکایت کی تھی اور میری شکایت والا واٹس ایپ میسیج اگلے دن فلٹر پلانٹ کے مالک نے مجھے بھیج کر دھمکی دی کہ آپ میرے ناجائز کاروبار کے راستے میں نہ آئیں۔ یقین جانئے سرکار کی نوکری کرتے ہی لوگ اس لئے ہیں کہ ایک تو پکی نوکری ہے نکالے گا کوئی نہیں، دوسرا کام کریں نہ کریں گھر چلتا رہے گا، تیسرا رعب دبدبہ ہو گا اور مختلف محکموں میں سرکاری پرچی چلتی ہے اس لئے احتساب بھی نہیں ہوگا اور چوتھا مال مفت کے مزے اور شاندار گاڑیاں، بنگلے اور خاندان کے لئے مفت کے مزے شامل ہیں۔ پچھلے دنوں ایک صاحب نے محکمہ صحت کو جوائن کیا تو ان کا مطالبہ تھا کہ انھیں فارچونر گاڑی ملے گی تو ہی وہ کام شروع کریں گے پھر ان کے گھر کے لئے بھی درجن بھر گاڑیاں موجود ہوتی ہیں۔ آپ سوچیں کہ ڈیڑھ دو لاکھ تنخواہ والا آدمی جب اڑھائی کروڑ کی گاڑی میں سوار ہو گا تو وہ کام کیا کرے گا بلکہ اس کو موٹر سائکل سوار اور پیدل لوگ کیڑے مکوڑے نظر آئیں گے۔ یہ تو ہماری عام نفسیات ہے کہ گاڑی میں بیٹھا شخص سڑک پر چلنے والے موٹر سائکل سوار کو حقیر ہی سمجھتا ہے ۔ ایک بار مجھے کمیونٹی کے ساتھ کسی سب انسپکٹر کے خلاف شکایت میں اے ایس پی سے ملنے کا اتفاق ہوا تو وہاں کے عملہ نے لوگوں کو بات کرنے کی اجازت تک نہیں دی اور آخر میں مجھے کہنا پڑا کہ اگر آپ لوگوں کی بات نہیں سننا چاہتے ہیں تو پھر انھیں بلاتے کیوں ہیں۔اس وقت کی حالت یہ ہے کہ تھانے کے ایس ایچ او تک عام شخص کی رسائی نہیں ہے اور ایس ڈی او لیسکو کو ملنا بھی ایک امتحان ہے اور ایسے ہی پیرا کے محکمے سے خدشات ہیں کہ یہ بھی نہ تو سرکاری کارندوں کے خلاف کاروائی کرے گا اور نہ ہی کسی مافیا کو ہاتھ ڈالے گا بلکہ شکایت کرنے والوں کو ہی مافیا کے سامنے ایکسپوز کرے گا اور اس طرح جگہ جگہ موجود مافیا کے ہاتھ مزید مضبوط ہوں گے اور انھیں ایک اور مضبوط محکمے کی سپورٹ مل جائے گی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کو سوچنا چاہئیے کہ کوئی بھی محکمہ بنا لینا کافی نہیں ہے بلکہ طاقتور محکموں اور ایجنسیوں کو لگام دینا زیادہ ضروری ہے اور پھر ان افراد کی تربیت اور ٹریننگ کے ساتھ ساتھ یہ باور کروانا بھی ضروری ہے کہ عوام کی مدد کرنا ان کی ذمہ داری ہے نہ کہ مہنگائی اور لاقانونیت کے چنگل میں پھنسے لوگوں پر ایک اور محکمے کا بوجھ لادکر ان کے لئے سانس لینا مشکل کردیا جائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں