اقوام متحدہ میں فلسطین کے مسئلے کے پرامن حل اور دو ریاستی نظریے پر عملدرآمد کے لیے منعقد ہونے والی اعلیٰ سطحی بین الاقوامی کانفرنس کا آغاز ہو گیا، جس میں سعودی عرب اور فرانس کی میزبانی میں دنیا بھر سے متعدد سربراہان اور اہم شخصیات شریک ہوئیں۔
سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے اپنے خطاب میں زور دیتے ہوئے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں دیرپا امن و استحکام کا واحد راستہ دو ریاستی حل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب تک فلسطینی عوام کو ان کے قانونی اور جائز حقوق نہیں دیے جاتے، تب تک خطے میں امن کا قیام ممکن نہیں۔
شہزادہ فیصل نے فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون کی جانب سے ستمبر میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اعلان کو خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ یہ کانفرنس دو ریاستی حل کی راہ میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہو سکتی ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ سعودی عرب کی پالیسی پہلے ہی اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کا قیام صرف ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام سے مشروط ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فلسطینی ریاست کی تشکیل 1967 کی سرحدوں کے مطابق ہونی چاہیے، جس میں مشرقی یروشلم کو اس کا دارالحکومت بنایا جائے۔
شہزادہ فیصل نے غزہ میں جاری انسانی المیے کے فوری خاتمے کا مطالبہ کیا اور عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ فلسطینی عوام کی مکمل حمایت کرے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سعودی عرب اور فرانس نے مل کر ورلڈ بینک کے ذریعے فلسطینی علاقوں کے لیے 300 ملین ڈالر کی امداد فراہم کرنے کا بندوبست کیا ہے۔
شہزادہ فیصل نے فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے کی جانے والی اصلاحات کی حمایت کا اظہار کیا اور عندیہ دیا کہ کانفرنس کے دوران فلسطینی اداروں کے ساتھ متعدد مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے جائیں گے، جن کا مقصد فلسطینی عوام کو مزید خودمختار اور بااختیار بنانا ہے۔
کانفرنس کے شریک صدر اور فرانسیسی وزیر خارجہ ژاں نول باروٹ نے کہا کہ فلسطینی عوام کو اپنی سرزمین پر مکمل خودمختاری حاصل ہونی چاہیے، اور مستقبل قریب میں مزید ممالک فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کر سکتے ہیں۔
انہوں نے زور دیا کہ غزہ میں جاری بمباری اور عام شہریوں کو نشانہ بنانا ناقابل قبول ہے، اور اب اس جنگ کا اختتام ہونا چاہیے۔











