نیب ترامیم کیس میں‌عمران خان ویڈیو لنک کے ذریعے سپریم کورٹ میں پیش

سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) ترامیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی جس دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ اگر آرڈیننس لانے ہیں تو پھر پارلیمان کو بند کر دیں۔
ذرائع کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے مقدمے کی سماعت کی، بینچ میں جسٹس امین الدین،جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی شامل ہیں۔
سپریم کورٹ میں نیب ترمیم کیس کی سماعت کے آغاز پر سابق وزیر اعظم عمران خان کو ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش کیا گیا، عمران خان نے نیلے رنگ کی قمیض پہنی ہوئی تھی، وہ تقریباً ڈھائی گھنٹے تک جاری رہنے والی سماعت میں حاضر رہے تاہم انہیں بات کرنے کا موقع نہیں مل سکا۔
دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلالیا، وکیل خواجہ حارث بھی روسٹرم پر آگئے۔
یاد رہے کہ مقدمے کی سماعت براہ راست نشر نہیں کی جارہی اور اس کی وجہ بھی بیان نہیں کی گئی ہے، واضح رہے کہ گزشتہ روز سماعت براہ راست نشر کی گئی تھی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے خواجہ حارث سے مکالمہ کیا کہ آپ آصل کیس میں وکیل تھے، آپ کے نہ آنے پرمایوسی تھی، ہم آپ کے مؤقف کوبھی سننا چاہیں گے، کیا بطور وکیل آپ نے فیس کا بل جمع کرایا؟ اس پر وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ مجھے فیس نہیں چاہیے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ تمام وکلا سے سینئر ہیں۔
بعد ازاں وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغازکرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں نیب ترامیم کا معاملہ زیر التوا ہے۔
اس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ مخدوم علی خان آپ اونچی آواز میں دلائل دیں تاکہ ویڈیو لنک پر موجود بانی پی ٹی آئی بھی آپ کو سن سکیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا ہائی کورٹ میں زیر التوا درخواست سماعت کے لیے منظور ہوئی؟ وکیل وفاقی حکومت نے بتایا کہ جی اسے قابل سماعت قراردے دیا گیا تھا، جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے نیب ترامیم کے خلاف کیس کا مکمل ریکارڈ منگوا لیں۔
چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے استفسار کیا آپ اس کیس میں وکالت کریں گے؟ وکیل نے بتایا کہ جی میں عدالت کی معاونت کروں گا۔
بعد ازاں عدالت نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں نیب ترمیم کیس پر ہوئی سماعت کا حکم نامہ طلب کر لیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ قانون درست نہیں ہے تو اسے کالعدم قرار دے دیں، اگر قوانین کو اس طرح سے معطل کیا جاتا رہا تو ملک کیسے ترقی کرے گا، آپ کو قانون پسند نہیں تو پورا کیس سن کر کالعدم کردیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا کسی بل کو معطل کرنا پارلیمنٹ کی کارروائی کو معطل کرنا نہیں؟ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ایسے پھر پارلیمنٹ کو ہی کیوں نہ معطل کردیں؟ ہم قانون توڑیں یا ملٹری توڑے ایک ہی بات ہے، ہم کب تک خود کو پاگل بناتے رہیں گے؟
جسٹس قاضی فائز عیسی نے مزید بتایا کہ اگر مجھے کوئی قانون پسند نہیں تو اسے معطل کردوں کیا یہ دیانتداری ہے؟ کیا ہم کبھی بطور ملک آگے بڑھ سکیں گے ؟ ایک قانون کو معطل کر کے پھر روزانہ کیس کو سن کر فیصلہ تو کرتے، کیا قانون معطل کر کے بینچ اس کے خلاف بنا کر دیگر مقدمات سنتے رہنا کیا یہ استحصال نہیں؟
اس موقع پر مخدوم علی خان نے کہا کہ آپ نے بطور سینئر ترین جج یہ نقطہ اٹھایا تھا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ اسے چھوڑیں کیا آپ کا اپنا کوئی نقطہ نظر نہیں؟
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اپیل متاثرہ فریق دائر کر سکتا ہے اور وہ کوئی بھی شخص ہو سکتا ہے، حکومت اس کیس میں متاثرہ فریق کیسے ہے؟ پریکٹس ایند پروسیجر کے تحت اپیل صرف متاثرہ شخص لائے گا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ صرف متاثرہ شخص نہیں قانون کہتا ہے متاثرہ فریق بھی لاسکتا ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دو تشریحات ہو سکتی ہیں کہ اپیل کا حق صرف متاثرہ فریق تک محدود کیا گیا، متاثرہ فریق میں پھر بل پاس کرنے والے حکومتی بینچ کے ممبران بھی آسکتے ہیں، اگر اس طرح ہوا تو ہمارے سامنے 150 درخواست گزار کھڑے ہوں گے، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ قانون سازوں نے ہی متاثرہ فریق کے الفاظ لکھے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں