مصطفےٰ صفدر بیگ کا کالم

خوابوں کی قبریں اور حقیقت کا کرب: مصطفےٰ صفدر بیگ کا کالم

خوابوں کی قبریں اور حقیقت کا کرب: مصطفےٰ صفدر بیگ کا کالم
ایکارس یونانی دیومالا کا وہ کردار ہے جس نے ایک ایسا خواب دیکھا جو آج تو یقینا ایک حقیقت ہے، لیکن ہزاروں برس پہلے موت کے پیغام کے سوا کچھ نہ تھا۔ ایتھنز کے رہائشی ایکارس نے پرندوں کے پر اور موم سے جڑے پروں کی مدد سے آسمان کی بلندیوں کو چھونے کی کوشش کی۔
ایکارس کے والد ڈیڈالس نے اسے خبردار کیا کہ پرواز کے دوران سورج کے قریب مت جانا، کیونکہ موم کے پر پگھل جائیں گے۔ لیکن ایکارس کی خواہشوں نے اسے سرکش بنادیا تھا، چنانچہ اس نے اپنی حد سے تجاوز کیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سورج کی تپش نے ایکارس کے پروں کو پگھلا دیا اور وہ سمندر میں گر کر ہلاک ہوگیا۔
یونانی اساطیر کی یہ داستان آج ہمارے حال کا آئینہ بن چکی ہے۔ مگر آج کے ایکارس اپنے خوابوں کے پر لگا کر نہ تو خوشبوؤں کے دیس جا رہے ہیں اور نہ ہی روشنیوں کی دنیا میں قدم رکھ رہے ہیں۔ بلکہ وہ بے رحم سمندروں کی گہرائیوں میں دفن ہو رہے ہیں، جہاں ان کا کوئی مقبرہ بنتا ہے نہ ہی ان کا کوئی نشان باقی ملتا ہے۔ صرف خواب باقی رہ جاتے ہیں، وہ خواب جو کبھی ان نوجوانوں کی آنکھوں کی چمک تھے، اب ان کے والدین کی آنکھوں کے آنسو بن چکے ہیں۔
اوقیانوس کی بے رحم موجوں کی نذر ہونے والے گجرات کے ان بارہ نوجوانوں کی لاشیں جب گھر پہنچیں گی، تو ان کی ماؤں کی چیخیں پورے محلے کی فضا کو دہلا دیں گی، لیکن کیا کوئی قلم ان آہوں کو لکھ سکتا ہے؟ کیا کوئی لفظ اس دکھ کو بیان کرسکتا ہے، جو ایک ماں اپنے جگر کے ٹکڑے کے لئے محسوس کرتی ہے؟ وہ ماں جو دن رات محنت کرکے اپنے بیٹے کو بہتر زندگی دینے کا خواب دیکھتی رہی، آج اس کا بیٹا تابوت میں واپس آئے گا تو اس پر کیا گزرے گی؟
ایک باپ، جو اپنی جوانی میں خود غربت کے تھپیڑے سہتا رہا، اس امید پر کہ اس کا بیٹا اس کی تمام محرومیوں کا ازالہ کرے گا، آج اپنے بیٹے کی تصویر ہاتھ میں لئے گلیوں میں گھومتا رہے گا۔ اس کی زبان خاموش ہوگی، لیکن اس کی آنکھیں سوال کر رہی ہوں گی “کیا میری محبت اور قربانی اتنی ناکافی تھی کہ میرا بیٹا مجھے چھوڑ کر کسی اور سرزمین میں سکون تلاش کرنے چلا گیا؟”۔
بحر اوقیانوس کے عین بیچ کشتی کے حادثے کے بعد سمندر نے جو کہانی سنائی، وہ ان جوان لاشوں کی کہانی نہیں ہے بلکہ ان خوابوں کی کہانی ہے جو کبھی ان جوانوں کے دلوں میں دھڑکتے تھے۔ وہ خواب جو یورپ کے شہروں کی روشنیوں میں چھپے تھے، وہ خواب جو ایک محفوظ مستقبل کے وعدے تھے، آج انہی خوابوں نے انہیں ابدی نیند سلادیا۔
کیا یہ دکھ کافی نہیں کہ ان ماں باپ کو اب بھی یہ یقین دلانے والا کوئی نہیں کہ ان کے بچے کا خواب ہی اس کی موت کا سبب بنا؟ انسانی اسمگلرز نے ان نوجوانوں کی مایوسی کو اپنی کمائی کا ذریعہ بنایا۔ ان کے جھوٹے وعدے، موم کے ان پروں کی طرح تھے، جو سورج کی تپش برداشت نہ کرسکے اور ان جوانوں کو سمندر کی بے رحم لہروں کے حوالے کردیا۔
سوچئے! جب گجرات کے اس چھوٹے سے گاؤں میں ایک ساتھ کئی جنازے اٹھیں گے تو پورے گاؤں کی فضاء کیسی ہوگی؟ مائیں بین کریں گی، بہنیں اپنے بھائیوں کے کفن پر سسکیاں لے کر گرتی رہیں گی، اور باپ اپنے بچوں کی لاشیں کندھے پر اٹھائے خود اپنے جینے کا مقصد کھودیں گے۔ یہ صرف ایک حادثہ نہیں ہے، یہ انسانی بے بسی اور ہماری اجتماعی ناکامی کی المناک تصویر ہے۔
سال 2024 کے دوران ہر دن 30 سے زائد افراد یورپ پہنچنے کی کوشش میں موت کے گھاٹ اترے۔ یہ صرف اعداد و شمار نہیں، یہ روزانہ 30 گھروں کے چراغ بجھنے کی کہانی ہے۔ یہ ان امیدوں کا جنازہ ہے، جو ان نوجوانوں کے والدین نے اپنے بڑھاپے کے لئے روشن کر رکھی تھیں۔ یہ ان خوابوں کی بربادی ہے، جنہیں یورپ کے ساحلوں نے نگل لیا۔
آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے نوجوان اپنی زندگیوں کو داؤ پر لگا کر ان خطرناک راستوں کا انتخاب کرتے ہیں؟ یقیناً اس سوال کا جواب ہمارے اپنے رویوں اور نظام کی کمزوریوں میں پوشیدہ ہے۔ وطن عزیز میں بے روزگاری، غربت، اور بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی نوجوانوں کو مایوسی کے اندھیروں میں دھکیل رہی ہے۔
جب ایک معاشرہ اپنے نوجوانوں کو مواقع فراہم کرنے میں ناکام رہتا ہے، تو وہ اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے غیر قانونی راستوں کا انتخاب کرتے ہیں۔
یہ اسمگلر ایکارس کے پروں کے مانند نوجوانوں کے ساتھ امیدوں کے جھوٹے پروں کا وعدہ کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان پروں کی بنیاد موم کی طرح کمزور ہوتی ہے، جو پہلے ہی طوفان کے سامنے پگھل جاتی ہے۔ اس طرح انسانی اسمگلر ان نوجوانوں کے خوابوں کے سوداگر بن کر ان کی مایوسی کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور انہیں موت کے سفر پر روانہ کردیتے ہیں۔
اسپین کے راستے کینری جزائر تک جانے والا اٹلانٹک روٹ دنیا کے خطرناک ترین سمندری راستوں میں سے ایک ہے۔ یہ راستہ خوابوں کے متلاشیوں کے لیے موت کا دروازہ بن چکا ہے۔ جب کشتی ڈوبنے کا یہ حادثہ پیش آیا تو اس وقت انسانی حقوق کے کارکن رپورٹوں اور بیانات میں مصروف تھے۔
لیکن کیا ان بیانات نے ان ماں باپ کی تکلیف کم کی، جو اپنے بچوں کے موت کی خبر سن کر پتھر کی مورت بنے بیٹھے ہیں؟ کیا ان رپورٹس نے ان بہنوں کے آنسو خشک کئے، جو اپنے بھائیوں کے لئے دعائیں کر رہی تھیں؟
یہ کشتی کا حادثہ صرف ان بدنصیبوں کی کہانی نہیں، یہ ہم سب کا المیہ ہے۔ یہ ہمیں آئینہ دکھاتا ہے کہ ہم بحیثیت قوم، اپنے نوجوانوں کو کیا دے رہے ہیں؟
ایک بار پھر ایکارس کی کہانی یاد آتی ہے، جو اپنی خواہشوں کے طوفان میں خود کو فنا کر بیٹھا۔ ہم نے اپنے نوجوانوں کو ایکارس کے انجام پر چھوڑ دیا ہے۔ لیکن کیا ہم ان کے لئے وہ پر فراہم نہیں کر سکتے، جو انہیں ان کے اپنے آسمان کی بلندیوں پر لے جائیں؟
آج ہم سب کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ اپنے نوجوانوں کو موت کے ان راستوں سے کیسے بچانا ہے۔ ہمیں انہیں یہ یقین دلانا ہوگا کہ ان کے خواب ان کی اپنی سرزمین پر بھی سچ ہوسکتے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ نوجوان ہمارا سرمایہ ہیں، اور انہیں محفوظ مستقبل فراہم کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔
یہ تحریر ان تمام والدین کے نام ہے، جو آج اپنے بچوں کی لاشوں کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ ان کے آنسو ہمارے اجتماعی ضمیر پر بوجھ ہیں۔ یہ آنسو ہمیں جگانے کی کوشش کررہے ہیں، لیکن کیا ہم سن رہے ہیں؟ اگر ہم آج بھی نہ جاگے، تو یہ آنسو کل تاریخ کے صفحات پر سوالیہ نشان بن کر رہ جائیں گے۔
یہ وقت ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کے لئے خوابوں کا ایک محفوظ اور حقیقی راستہ فراہم کریں۔ اگر ہم ایسا نہ کر سکے، تو ہماری خاموشی، ان تمام جنازوں کا بوجھ بن کر ہمارے ضمیر پر سوار رہے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں