غارت گری سے دلبری تک، مصطفےٰ صفدر بیگ کا کالم

غارت گری سے دلبری تک، مصطفےٰ صفدر بیگ کا کالم

یہ داستان ایک ایسے خزانے کی ہے، جسے عوام کی محنت، پسینے اور قربانیوں نے ہمیشہ لبریز رکھا، مگر جس کے دروازے ہمیشہ چند مخصوص چہروں کے لیے ہی کھلے رہے۔ یہ حکایت ہے ایک ایسے نظام کی، جہاں رعایا کی جیب سے سکہ نکالا جاتا ہے، مگر اس کی کھنک صرف چند دستار پوشوں کے زرخرید غلاموں تک پہنچتی ہے۔ یہ قصہ ہے ان چالاک بازیگروں کا، جو خزانے کے نگہبان بننے کا لبادہ اوڑھ کر آتے ہیں مگر حقیقت میں اس کی بنیادوں کو دیمک کی طرح چاٹ کر چلے جاتے ہیں۔

آج بھی اسی کہانی کا ایک نیا باب رقم ہو رہا ہے۔ پاکستان کے قومی خزانے کی زبوں حالی پر ہر حکومت کی مخالفت میں ایک جملہ سننے کو ملتا ہے، “حکومت اپنے اخراجات پر کنٹرول نہیں کر رہی۔” اس جملے کی تکرار اتنی عام ہو چکی ہے کہ عوام اسے سن کر ایک لمحے کے لیے بھی چونکنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ مگر اس بیان کی سنگینی کا اندازہ اسی وقت ہوتا ہے جب محنت کشوں کی اجرت پر ٹیکس کا مزید بوجھ ڈال دیا جاتا ہے، جب متوسط طبقے کی سانسیں مہنگائی کی زنجیروں میں جکڑ دی جاتی ہیں اور جب عوام کی امیدوں کا خون پارلیمنٹ کے کیسری قالینوں تلے جذب ہو جاتا ہے۔

اربوں روپے کی اسکیمیں بنتی ہیں، لیکن کیا وہ عوام کی فلاح کے لیے ہوتی ہیں؟ ہرگز نہیں۔ یہ اسکیمیں درحقیقت ایک سیاسی جادوگری ہوتی ہیں، جس کے ذریعے عوام کے پیسے کو ووٹ بینک کی تقویت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جو سڑکیں، گلیاں، نالیاں اور دیگر منصوبے عوام کے نام پر بنتے ہیں، وہ درحقیقت ان کے حق میں سب سے بڑی سازش ثابت ہوتے ہیں۔

یہ کھیل ایک بار پھر دہرایا جا رہا ہے۔ قومی خزانے کا منہ کھول دیا گیا ہے، مگر یہ سوال آج بھی جواب طلب ہے کہ عوام کی جیب کا منہ کب بند ہوگا؟ آخر کب تک تنخواہ دار طبقے کو قربانی کا بکرا بنایا جاتا رہے گا؟ کب تک ان کے خون پسینے کی کمائی کو مقتدر ایوانوں میں بانٹنے کا عمل جاری رہے گا؟

جبکہ دوسری طرف دنیا کی بساط پر ایک اور کہانی لکھی جا رہی ہے۔ چین کی ایک چھوٹی سی کمپنی نے امریکہ جیسے دیو کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ یہ کمپنی مصنوعی ذہانت کے میدان میں ایک ایسا ماڈل لے کر آئی ہے، جس نے ٹیکنالوجی کی دنیا میں بھونچال برپا کردیا۔ صدر ٹرمپ کی پیشانی پر پریشانی کی لکیریں ابھر آئیں اور امریکی ادارے اس بات کی کھوج میں لگ گئے کہ کہیں یہ ٹیکنالوجی ان کی سلامتی کے لیے خطرہ تو نہیں؟

مگر سوال یہ ہے کہ آخر چین کی یہ چھوٹی سی کمپنی اتنی طاقتور کیسے بنی؟

جواب سادہ ہے

چین نے اپنے وسائل کو دانشمندی سے استعمال کیا۔ انہوں نے سرمایہ کاری کی، مگر بے سروپا اور لایعنی ترقیاتی منصوبوں پر نہیں، بلکہ علم، تحقیق اور ٹیکنالوجی پر۔ انہوں نے اپنے نوجوانوں کو ہنر سکھایا، انہیں مواقع دیے اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو دنیا کے سامنے ایک نئے انداز میں پیش کیا۔

اور ہمارے ہاں؟

ہمارے وسائل کہاں جا رہے ہیں؟

کیا ہم بھی چین کی راہ پر چل رہے ہیں؟

جواب وہی ہے، جو برسوں سے ہم سنتے آرہے ہیں

“نہیں”

ہمارے وسائل سیاسی کوزہ گروں کے ترقیاتی فنڈز میں غرق ہورہے ہیں۔ ہماری دولت ان کے سیاسی کھیلوں کی نذر ہورہی ہے۔ ایسے میں وزیر خزانہ کا حالیہ بیان ایک اور زخم کی صورت سامنے آیا ہے۔ محمد اورنگزیب نے اپنے حالیہ انٹرویو میں کہا کہ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کے ریٹ کم کرنا ممکن نہیں، مگر ان کے لیے ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کے عمل کو آسان بنایا جارہا ہے۔ گویا زخم پر مرہم لگانے کے بجائے اسے مزید ہرا کردیا گیا ہو۔

یہ محض ایک بیان نہیں، بلکہ ایک تلخ اعتراف ہے۔ وزیر خزانہ نے خود تسلیم کیا کہ “آئی ایم ایف کی شرائط کے باوجود اخراجات بے قابو ہیں۔ ترقیاتی بجٹ کم ہو گیا ہے، مگر سیاستدانوں کے فنڈز بڑھ گئے ہیں۔” اس سادہ سے جملے میں ایک پوری کہانی پوشیدہ ہے، ایک ایسی کہانی جس میں عوام کا پیسہ سیاستدانوں کے خوابوں کو تعبیر دینے میں صرف ہوتا ہے، مگر عوام کے خوابوں کو تعبیر دینے کے لیے کچھ باقی نہیں بچتا۔

ہر سال تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ ہر بجٹ میں ایک نیا بوجھ عوام کے کندھوں پر لاد دیا جاتا ہے۔ ٹیکس میں اضافہ ہوتا ہے، مہنگائی کی تیغ مزید تیز ہوجاتی ہے، مگر کیا کبھی سیاستدانوں کے اخراجات میں کٹوتی کی گئی؟ کیا کبھی ان کی مراعات میں کمی کی گئی؟

نہیں۔

کیوں؟

کیونکہ عوام کی جیب ہمیشہ ان کے لیے کھلی رہتی ہے۔

تو کیا اس صورتحال میں کوئی راستہ ہے؟ کیا یہ نظام بدلا جا سکتا ہے؟ کیا قومی خزانے کو عوام کی امانت بنایا جاسکتا ہے؟

جواب “ہاں” میں ہے، مگر اس کے لیے ہمیں اپنی سوچ بدلنی ہوگی۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ وسائل ہمارے ہیں اور انہیں ہمارے ہی مفاد میں استعمال ہونا چاہیے۔ ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ ترقی لایعنی منصوبوں سے نہیں، بلکہ تعلیم، تحقیق اور ہنر سے حاصل ہوتی ہے۔

چین نے ایک راستہ اختیار کیا، اور آج وہ دنیا کی معیشت میں طوفان برپا کررہا ہے۔ ہم نے بھی ایک راستہ اپنایا، اور آج ہم کشکول بدست کھڑے ہیں۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم اپنی تقدیر کے مالک بننا چاہتے ہیں یا یونہی ہر سال ٹیکس کے بوجھ تلے دب کر اپنی قسمت کو کوستے رہیں گے۔

المیہ یہ بھی ہے کہ یہ کہانی ختم نہیں ہوتی۔ ہر بجٹ میں یہی تماشا ہوتا ہے۔ ہر حکومت میں یہی کھیل کھیلا جاتا ہے۔ ہر دور میں عوام کو قربانی کا سبق پڑھایا جاتا ہے۔ مگر کیا ہم اس کہانی کا انجام بدل سکتے ہیں؟

جواب “ہاں” میں ہے، مگر اس کے لیے ہمیں بیدار ہونا ہوگا۔ ہمیں اپنی آواز بلند کرنی ہوگی۔ ہمیں اپنے حقوق کا شعور حاصل کرنا ہوگا۔ ہمیں قومی خزانے کی غارت گری سے عوام دلبری تک کا سفر جلد مکمل کرنا ہوگا، ورنہ یہ کہانی یونہی دہرائی جاتی رہے گی، خزانے کا منہ یونہی کھلا رہے گا، اور عوام کی جیب یونہی خالی ہوتی رہے گی۔
اور یوں، رفتہ رفتہ عوام کی قربانی ایک لازمی بھینٹ کی صورت اختیار کر جائے گی، جس پر کوئی حیرت بھی ظاہر نہیں کرے گا، اور کوئی ماتم بھی نہیں کرے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں