زمین کا بخار اور انسان کی بے حسی، مصطفےٰ صفدر بیگ کا کالم
ذرا تصور کیجیے، ایک بیمار جسم بسترِ علالت پر تپ رہا ہے۔ ماتھے پر پسینے کی بوندیں چمک رہی ہیں، مریض کی سانس دھونکنی کی مانند چل رہی ہو، پلکیں بوجھل اور بدن برف کی طرح ٹھنڈا ہو رہا ہو۔ گھر والے چاروں طرف کھڑے اسے تکتے جا رہے ہوں، مگر دوا دینے کے بجائے خاموش تماشائی بنے رہیں اور طبیب سر جوڑے کھڑے ہیں۔ مگر یہ کوئی عام مریض نہیں، یہ ہماری زمین ہے، وہی زمین جو کبھی سرسبز باغوں، جھرنوں کی صداؤں اور پرندوں کے نغموں سے گونجتی تھی، وہی زمین، جس نے ہمیں زندگی بخشی، جس کی چھاؤں میں ہم نے گھر بسائے، جس کی آغوش میں کھیت اگائے اور جس کے دریاؤں سے اپنی پیاس بجھائی۔
آج تپتے ہوئے ریگستان میں بدل رہی ہے۔ اس کا بخار بڑھ رہا ہے، اور ہم؟ ہم تیمارداری کے نام پر ہاتھ میں جدید تھرمامیٹر لیے کھڑے ہیں، مگر دوا دینے کی بجائے خود زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں۔
سائنس کی گواہی توجہ طلب ہے۔ “نیچر ریویو ارتھ اینڈ انوائرمنٹ” کی تازہ رپورٹ دہکتے انگاروں کی مانند ہے، جس کے ہر حرف سے شعلے نکل رہے ہیں۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اگر زمین کا درجہ حرارت مزید دو ڈگری بڑھا تو انسانوں کے لیے سانس لینا مشکل ہو جائے گا۔ یہ وہ مقام ہے جہاں لہو کھولنے لگتا ہے، دماغ پگھلنے لگتا ہے، اور موت بانہیں پھیلائے کھڑی نظر آتی ہے۔ یہ کوئی تخیلاتی افسانہ نہیں، بلکہ وہ مستقبل ہے جسے ہم خود اپنے ہاتھوں سے تراش رہے ہیں۔
سال 2023 کی حشر سامانی کو کون بھول سکتا ہے؟ حج کا مبارک موسم، لیکن حجاز کی سرزمین پر سورج قہر ڈھانے پر اتر آیا تھا۔ درجہ حرارت 51.8 ڈگری، گویا ہوا میں شعلے گھل گئے ہوں۔ چمکتی ہوئی ریت جیسے بھٹی میں دہک رہی تھی۔ یہ وہ گرمی تھی، جس میں کھال جلتی ہے، سانس رکتی ہے، اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا ہے۔
وہ مقدس مسافر جو بخشش کی امید لیے دیارِ حرم پہنچے تھے، وہی حرارت ان کی ہڈیوں میں اتر گئی۔ 1300 عازمین حج جو دعاؤں میں مصروف تھے، پلک جھپکنے میں راکھ ہوگئے۔ خوابوں کا قافلہ خاکستر ہوا لیکن کیا کسی نے عازمین کی آخری سسکیاں سنیں؟ کسی نے ان کی تپتی پیشانی پر ہاتھ رکھا؟ نہیں! کیونکہ اعداد و شمار، انسانی زندگیوں سے زیادہ قیمتی ٹھہرے۔
یہ کہانی صرف حجاز کی نہیں، جیکب آباد کی گلیوں میں جھلستی دوپہریں بھی یہی قصہ دہرا رہی ہیں۔ علی ایک کسان ہے، جو کپاس اگاتا ہے، جس کی قسمت آسمان کی بوندوں سے بندھی ہے، آج سخت زمین پر کھڑا اپنے بیٹے احمد کو دیکھ رہا ہے۔ احمد، جس کے ناتواں ہاتھوں میں پانی کا خالی ڈرم ہے، دو کلومیٹر چل کر بھی پیاس نہیں بجھا پایا۔
پھر ایک دن، گرمی نے اس کے وجود کو جلا دیا۔ جسم 42 ڈگری تک پہنچا، اور ڈاکٹر نے کہا، “احمد کا دماغ متاثر ہو چکا ہے۔” علی روتا ہے، مگر جیکب آباد میں اب آنسو بھی سوکھ چکے ہیں، کیونکہ وہاں پانی نہیں، صرف دہکتی ہوئی ہوا ہے۔ ایسی لُو، جو جسم کو تندور میں تبدیل کر دیتی ہے۔
یہ رپورٹ چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ زمین کے درجہ حرارت میں دو ڈگری کا اضافہ ہلاکت خیز ہوگا۔ لیکن ہم؟ ہم سننے سے انکاری ہیں۔ ہماری سماعتوں پر قفل پڑ چکے ہیں۔ ہماری حکومتیں جو کوئلے کی کانوں پر ٹیکس معاف کرتی ہیں۔ ہماری صنعتیں، جو فضا میں زہر گھول رہی ہیں۔ ہماری بستیاں، جو جنگلوں کی قبروں پر تعمیر ہو رہی ہیں۔
کیا کسی کو پیرس معاہدہ یاد ہے؟ وہی معاہدہ، جس پر دنیا کے رہنماؤں نے دستخط کیے، مگر پھر اسے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا۔
2023 وہ سال تھا جب زمین کا درجہ حرارت پہلی بار 1.5 ڈگری سے اوپر چلا گیا۔ کیا تب کسی نے ہنگامی اجلاس بلایا؟ کیا کسی حکومت نے کوئی بڑا قدم اٹھایا؟ نہیں۔ کیونکہ اسٹاک مارکیٹ کے گراف، زمین کے درجہ حرارت سے زیادہ اہم ہیں۔
حیدرآباد کے ایک گاؤں میں کبھی برگد کا ایک قدیم درخت تھا۔ وہ سایہ دار پناہ گاہ، جہاں مسافر دم لیتے، چرواہے بھیڑ بکریاں باندھتے اور پرندے چہچہاتے تھے۔ مگر پھر ایک روز وہ درخت بھی اچانک مرگیا۔ اس کی جڑیں خشک سالی نے نگل لیں۔ اس کے نیچے لیٹے مویشی بھی پیاس سے نڈھال ہو کر گر پڑے۔
اب وہاں صرف اداسی کی دھول اڑتی ہے، جہاں کبھی زندگی رقصاں تھی۔ یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں، بلکہ ہر بستی کی کہانی ہے جہاں درختوں کی لاشیں گرتی ہیں اور انسان بے حسی کا لبادہ اوڑھے بیٹھا رہتا ہے۔
جنوبی ایشیا میں بھارت اور پاکستان کا شمار بھی ان ممالک میں ہوتا ہے، جہاں درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ گرمی کی شدید لہریں سالانہ ہزاروں زندگیاں نگل جاتی ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق ہر سال کم از کم 5 لاکھ افراد گرمی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ ادارے نے ساتھ ہی متنبہ کیا ہے کہ ہلاکتوں کی اصل تعداد 30 گنا تک زیادہ ہوسکتی ہے۔
سوال یہ نہیں کہ زمین کا درجہ حرارت کیوں بڑھ رہا ہے، سوال یہ ہے کہ ہم نے یہ کیوں ہونے دیا؟ ہم جانتے تھے کہ درختوں کے بغیر زمین کی کوکھ اجڑ جائے گی، مگر ہم نے اپنے آرام دہ کمروں میں بیٹھ کر کاغذی معاہدوں پر دستخط کیے اور پھر انہیں بھی ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔
ہم جانتے تھے کہ کارخانوں سے نکلتا زہر فضا کو نگل لے گا، مگر ہم نے ترقی کی چکاچوند میں آنکھیں بند کر لیں۔ ہم جانتے تھے کہ کوئلے کی کانوں سے اٹھتے دھوئیں کا انجام کیا ہوگا، مگر ہم نے اپنے وقتی فائدے کے لیے مستقبل کو قربان کردیا۔
لیکن کیا ہم سب کچھ بدل سکتے ہیں؟ ہاں! تاریخ گواہ ہے کہ جب انسان نے چاہا، تو سمندر کی تہہ سے مٹی نکال کر جزیرے بنا لیے، آلودہ دریاؤں کو شفاف کردیا، اور اوزون کی تہہ میں پڑے شگاف کو بھردیا۔ ہم پاکستان میں بھی یہ سب کرسکتے ہیں۔ جن علاقوں میں لوگوں نے درخت اگائے، وہاں اب ہریالی ہے، وہاں پرندے لوٹ آئے ہیں، وہاں گھونسلے آباد ہیں۔
یہ خواب نہیں، یہ ذمہ داری ہے۔ وہ صبح جو ابھی ہم نے دیکھی نہیں، وہ تبھی آئے گی جب شہروں میں جنگل اگیں گے، جب کارخانوں کے دھوئیں کی جگہ چنار کے درخت کھڑے ہوں گے، جب جیکب آباد کا کسان اپنے بیٹے کو اسکول بھیجے گا، اور وہ ڈاکٹر بن کر لوٹے گا۔
ورنہ وہ دن دور نہیں جب زمین کا بخار ہمیں جلا دے گا۔ اور ہماری قبروں کے سرہانے کوئی درخت نہیں ہوگا، صرف خشک مٹی ہوگی، جو ہماری بے حسی کی گواہی دے گی۔
