سیاں جی کے نام خط،بلاوجہ دل کا حال لکھ دیا

(تحریر:امیرمحمد خان )
پاکستان کی سیاست میں کسی سیاسی جماعت کا دھٹرن تختہ اسطرح نہیں ہوا جسطرح پی ٹی آئی اپنی جماعت کا دھڑن تختہ کرنے پر گامزن ہے، یہ عمل کہیں باہر سے نہیں ہورہا جماعت کو غیر معروف جماعت کرنے میں اسکے خودساختہ لیڈران نہائت تندہی سے مصروف ہیں، پی ٹی آئی کی پیدائش کچھ غیر سیاسی لوگوں کے ہاتھوں ہوئی جنکے ارادے صرف اور صرف ملک کے جمہوری ماحول کی ٖفضاء کو گند ہ کرنا تھا، جمہوری اقدار، جمہوریت کی مضبوطی ایک طرف نوجوانوں اور اپنے پیروکاروں کی زبانوں کی غٖلاظت سے بھر دیا ، خاص طور اس نے اپنے سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستان، پاکستان کی عسکری قیادت کے خلاف جو زہر اگلا اور یہ عمل تاحال جاری ہے یہ طرز عمل کسی محب وطن کی جماعت کانہیں ہوسکتا۔ روز روز کے دھرنے، ہڑتالوں سے جب عوام تنگ آگئے، اور ان دھرنوں سے جماعت کی مقبولیت میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہوسکا بلکہ یوں کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ نقصان در نقصان ہو، اڈیالہ کا باسی دیسی مرٖٖغی کے مزے لیکر عوام کو لڑنے کی تقلید کرتا رہتا ہے، جماعت میں موجود وکیل گروپ بھی ان سڑک کے احتجاجوں سے تنگ ہے۔ اب بات یہاں تک آپہنچی کہ کپتان کی بہن جماعت کے مرکزی عہدیداروں سے شاکی ہے،کپتان کی ”خاتون اول“ کپتان کی بہنوں اور مرکزی عہدیداروں سے شاکی ہے جب ایک سائنسی حقیقت کے جب کوئی مسئلہ طویل عرصے تک اپنے حل کو نہ پہنچے تو وہ مسئلہ نہیں رہتا روز کا معمول بن جاتا ہے، اب اڈیالہ کی رہائش ایک عام بات ہوچکی، پہلے دھرنوں میں لوگ آتے تھے مگر حکومت کے کریک ڈاؤن کے وقت جب کارکنوں نے مرکزی عہدیداروں کو میدان چھپ کر بھاگتے دیکھا تو انہوں نے بھی تہیہ کرلیاکہ ہم کیوں اپنا روزگار داؤ پر لگا کر جیل کی سختیاں برداشت کریں؟؟یہاں تک کہ اپنے آخری احتجاج پر جس واحد صوبے میں انکی حکومت ہے اور وہاں کے ذرائع استعمال کرکے وہ اسلاآباد میں چڑھائی کرتے تھے وہ ان تمام سہولیات کے باوجود وہ KPK میں عوام کو باہر نہیں نکال سکے جبکہ وہاں کے وزیر اعظم بڑے ”سخی ہیں وہ تو اکثر کارکنوں کو نقدی بھی تقسیم کرتے تھے غرض یہ سب تدابیر عوام کو کسی بھی شہر میں نہیں نکال سکیں۔ اب کپتان جو (کسی سیاسی جماعت، مثال کے طور پر وزیر اعظم،صدر کو تو کسی گنتی میں نہیں لیتے، انہوں نے براہ راست عسکری قیادت کی طرف نظر کی پہلے انکے خلاف غلیظ زبان استعمال کرے انہیں متنفر کیا پھر ان سے مذاکرات کی خواہش ظاہر کی(انوکھا لاڈلہ کھیلن کو مانگے چاند) ملاقاتوں کی خواہش خود ظاہر کرکے پروپنگڈہ کیاگیا کہ عسکری ادارے خوف رابطہ کررہے ہیں مگر ”بہادر“ کپتان خود نہیں مان رہا وہ کہتاہے مجھے جیل میں مرنا پسند ہے مگر معافی نہیں مانگونگا جینے مرنے کی اس خواہش کے ساتھ ساتھ بہادری کاجھوٹا پروپگنڈہ کرکے عسکری قیادت کوخط و کتابت شروع کردی پہلاخط تو کمال تھا جس میں بہ حیثت سابق وزیر اعظم عسکری قیادت کی ہدایات جاری کی گئیں تھی انہیں کیا کیا کرنا چاہئے، ایک خط، دو خط تین خط بلاآخر فوجی قیادت کو کہنا پڑا کہ ہمیں نہیں سیاسی آدمی وزیر اعظم کو خط لکھیں۔دراصل جیسا میں نے اوپر تحریر کیا ہے اس جماعت کا وجود ہی اسوقت کی عسکری قیادت مرہون منت تھا اسلئے اس جماعت کو تاحال یہ تاثر ہے کہ عسکری قیادت ہی ہمارے مسائل حل کرسکتی ہے، جبکہ یہ قیادت 2013-2014 والی قیادت نہیں، نہ ہی اسوقت کے جج ہیں جو پنامہ کے مقدمہ پرگرفتاری کراکر وزیر اعظم کو اسلئے نااہل کردیتے کی کفالت بیٹے کی تھی تنخواہ کیوں نہیں لی۔زیادہ پرانی بات نہیں ہے آج کے ترقی یافتہ دور میں کہانی سے پردے جلد ہی اٹھ جاتے ہیں اور کردار از خود طوطے کی طرح بولنے لگتے ہیں۔ احتجاجی، توڑ پھوڑ کی سیاست کے بعد اب رخ کرلیا ہے نئے امریکی صدر کی طرف وہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ کے نو منتخب صدر KPK سے ہیں وہ جلد رہا کراسکتے ہیں امریکی انتخابات سے قبل AI کے ذریعے ٹرمپ کا ویڈیو بھی بنا کر سوشل میڈیا پر جاری کردیا تھا جس میں وہ کہہ رہے تھے میں اقتدار میں آکر عمران کو رہا کراؤنگا،پی ٹی آئی کے معصوم کارکن ا س آس میں بیٹھے رہے کہ اب ٹرمپ میانوالی آئے گا ہم اسکا استقبال کرینگے اس آس میں بھی چند ماہ نکل گئے،یور پ اور امریکہ میں بہت ڈالر ز خرچ ہوئے کہ اب کوئی رکن پارلمنٹ ہی عمران کی رہائی کی بات کرلے وہ کرالی گئی۔ٹرمپ اور یورپی پارلمینٹ کے خط لکھ کر پاکستان، پاکستان کے سیاسی نظام، بہادر عسکری قیادت کے متعلق منفی باتیں کی گئیں جو اس جماعت کی ”محب وطنی“ کا ثبوت ہے خط براہ راست نہ پہنچ سکے شائد ڈاکیہ مسلم لیگ ن کا تھا اسلئے اب کپتان کو مشہور رسالے TIMS مضبون لکھ کر، (جسکے لئے بھاری ڈالرز استعمال ہوئے ہونگے) غرض ٹائم میں لکھے جانے والا مضمون ایک مایوس شخص کی تحریر لگتا ہے ابھی تک ایسی کوئی تصدیق شدہ اطلاع نہیں ہے جس سے یہ ظاہر ہو کہ پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو جیل سے خط بھیجا ہو۔ تاہم، خان نے اپنی قید کے دوران بین الاقوامی برادری سے فعال طور پر رابطہ کیا ہے۔ خاص طور پر، انہوں نے ٹائم میگزین کے لیے ایک مضمون لکھا، جس میں پاکستان کی سیاسی صورتحال پر عالمی توجہ کی اہمیت پر زور دیا گیا۔پی ٹی آئی کی کوششوو ں کے جواب میں امریکی کانگریس مین جو ولسن نے پاکستانی رہنماؤں کو خط لکھا، جس میں خان کی رہائی کی وکالت کی گئی اور پاکستان میں جمہوری عمل کے بارے میں خدشات کو اجاگر کیا۔ مضمون میں time یہ بھی لکھتا ہے کہ ڈیپ فیک ویڈیوز گردش کر رہی ہیں، جن میں ٹرمپ کو خان کی رہائی کو محفوظ بنانے کا وعدہ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ان ویڈیوز کو ڈیبنک کر دیا گیا ہے اور انہیں تنقیدی طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ خلاصہ یہ کہ، اگرچہ قید کے دوران خان سے ٹرمپ سے کوئی مصدقہ خط و کتابت نہیں ہوئی، صورت حال اندرونی حرکیات اور بین الاقوامی تناظر دونوں سے متاثر ہو کر ابتر ہوتی جارہی ہے۔جس طرح سوشل میڈیا میں منفی پروپگنڈہ کی روک تھام نہ کرنے والے بیرون ملک سفارت خانے یا قونصل خانہ ذمہ دار ہیں اسی طرح تمام تر پابندیوں کے باوجود time magazine کے سوالات اڈیالہ میں عمران تک کیسے پہنچے ؟؟؟یہ ہمارے کسی سفارت کار کی یاد اللہ ہے کہ وہ میگزین انتظامیہ سے پوچھے کہ یہ تحریر از خود میگزین کے صحافی کی ہے یہ عمران خان کی تحریر ہے۔مضمون عمران خان کے حوالے سے لکھتا ہے وہ اپنے اصولوں پر سمجھوتہ کرنے کے بجائے اپنی باقی زندگی جیل میں گزاریں گے، ا گر یہ طے کرلیا ہے تو پھر خط کتابت کا کیا فایدہ؟؟۔غرض چھٹی سیاں جی کے نام لکھنے سے خان کے مقدمات پر کوئی چھوٹ نہیں ہوگی، نہ ہی رہا ہونے جارہے ہیں، سیاسی جماعت ہے تو اسمبلی میں بیٹھے ہیں نشستیں بھی ہیں، اپنا کیس بیان کریں، مگر وہاں مجبوری ہے کسی بل پر اگر حکوت کو حمائت چاہئے تو پی ٹی آئی کے اراکین ”مک مکا“کرکے حکومت کی مدد بھی کرلیتے ہیں، بیرون ملک خطوط لکھنے سے ملک کی بدنامی ہے اسی ملک کی جس میں انہوں نے کل حکومت کی تھی اور آنے والے کل میں بھی شائد حکومت کرنے کے خواہش مند ہیں، تو ملک تو اپنا ہے۔حکومت کو بھی چاہئے عوام کی سہولیات پر کام کرے، وزراء عمران کی تسبہی پڑھنا کم کریں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں