(تحریر:امیر محمد خان)
اکثر ممالک میں کرپشن کی وباء نے ان ملکوں کی ترقی کو گرہن لگادی ہے، معیشت تباہی کی طرف جارہی ہے اسلئے کرپشن خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں ایک نہائت ہی ناپسندیدہ فعل ہے کرپشن کرنے والے کرداروں کو ہر گز محب وطن شہریوں کی فہرست میں نہیں ڈالا جاسکتا ہے کرپش کرنے والے کسی دہشت گرد سے کم نہیں، دہشت گرد کچھ لوگو ں کوقتل کرتا ہے جبکہ کرپٹ شخص ملک کی پوری آبادی کو نقصان پہنچاتا ہے، کرپٹ لوگوں کی وجہ سے معاشرے میں خطرناک طبقاتی فرق جنم لیتا ہے،کرپٹ لوگوں کی اکثریت نوکر شاہی میں ہوتی ہے، گو گوکہ حکومتی منصب پر بیٹھنے والے وزراء بھی اسی فہرست میں ہوتے ہیں اگر وزیر خود ہی کرپٹ ہوتو اسکی نوکر شاہی کی چاندی ہوجاتی ہے، وہ وزیر کے نام پر دس جگہ کرپشن کرکے اپنے بنک اکاؤنٹ کی پرورش کرتا ہے ایک وزیر کو دیتا ہے چونکہ کرپشن کے طریقہ کار سے نوکر شاہی بخوبی واقف ہوتی ہے وزیر تو چند سال یا چند ماہ کیلئے اقتدار میں آتا ہے نوکر شاہی کا کرپٹ شخص جب تک پکڑا نہ جائے اسوقت تک مزے کرتا ہے یہ سلسلہ اسکی ریٹائرمنٹ تک جاتا ہے، اگر معاشرے میں کرپشن کی روک تھام نہ ہو تو وہ معیشت کا ناسور بن جاتی ہے اور اوپر سے لیکر نیچے تک کرپشن کاماحول بن جاتا ہے جس وجہ سے یہ محاورہ جنم لیتاہے کہ ”رشوت لیتے ہوئے گرفتار ہوا رشوت دیکر چھوٹ جا“ وطن عزیز پاکستان کی معیشت ابھی پروان چڑھ رہی ہے یہ ایک علیحدہ بات ہے کہ 75سال کے بعد ہم دیکھ رہے ہیں معیشت پروان تو چڑھ رہی ہے مگر اسکے اثرات اس فائدہ کی طلب کرنے والے اور حقدار عوام تک تاحال نہیں پہنچ سکی ہر آنے والی حکومت نے سہانے خواب دکھائے مگر ان سہانے خوابوں کی تدبیر عوام تک نہیں پہنچ سکی اور عوام کامعیار زندگی تنزلی کی طرف گامزن رہا اور گامزن ہے، پاکستان ایک مقروض ملک ہے ملک کے کرتا دھرتاؤں کی کوششو ں سے قرض دینے والا سب سے بڑا ادارہ IMF قرض دے رہا ہے اسکا ایجنڈہ قرض لینے والے ملک کی معیشت کا سدھار ہوتا ہے مگر ساتھ ہی معیشت کی درستگی کیلئے کڑی شرائط بھی عائد کرتاہے، دوسری جانب ہمارے دوست ممالک ہمیں قرض دیتے ہیں انکی شرائط سخت نہیں ہوتیں، مگر وہ ہمارے طور طریقے دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ چاروں طرف قرض بٹورنے کے باوجود اپنی نوابی زندگی سے باز نہیں آرہے حکومت اخراجات میں کمی کے اعلانات کبھی کبھی ہوجاتے ہیں مگر ساتھ ہی وزراء کی فوج ظفر موج میں اضافہ ہوجاتا ہے، وہ صرف وزیر کا اضافہ نہیں ہوتا اسکا ایک معاون وزیر قسم کا بندہ ساتھ ہوتا ہے، اسکا سیکریٹری او ر پورا اسٹاف ہوتا ہے انکے الاؤنس ہوتے ہیں گاڑیاں نوکر چاکر ایک علیحدہ خرچ ہے۔ خاص طور ہمارے جیسے ملک میں جہاں سنگل جماعتی حکومت کے کوئی مستقبل میں بھی آثار نہیں وہاں ووٹ دینے والی ہر جماعت کی نمائیندگی کیلئے وزیر کو لیاجاتا ہے اگر یک جماعتی حکومت ہوتو شائد وہ جماعت اپنی ساکھ کی بہتری کیلئے وزراء کی فوج بھرتی نہ کرے ،قانون کی پاسداری سے ہم بہت دور ہیں جب قانون بنتاہے کہ نوکر شاہی اپنے اثاثے ظاہر کرے تو کتنے لوگوں نے ظاہر کئے ؟؟ ہماری معیشت کا سہارہ IMFٰ ٰیہ مطالبہ ہر دفعہ قرض دینے سے قبل ہونے والے مذاکرات میں کرتا ہے، حکومتی اخراجات میں کمی کی مطالبہ کرتاہے جو کئی حکومت نہیں کرتی او ر اسکا نزلہ بلاآخر پیٹرول ، بجلی نرخوں پر گرتاہے، یہ وہ بنیادی اشیاء ہیں جنکی قیمتوں میں اضافہ سے بازار میں ہر چیز کے نرخ بڑھنا لازمی ہیں، جب قانون کی گرفت مضبوط نہ ہو تو منافع خور بھی عوام کو ذبح کرتے ہیں۔ عام آدمی سمجھتا ہے کہ کرپشن وہی ہوتی ہے جو سڑک پر ٹریفک والا چند نوٹ کسی سنگل توڑنے والے سے لیکر اسکا چالان نہیں کرتا بدعنوانی کئی شکلیں ہیں اور یہ صنعت، شعبے اور ملک کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے۔ اس میں شوت کے زمرے میں فیصلوں پر اثر انداز ہونے کے لیے رقم، تحائف، یا احسانات کی پیشکش یا وصول کرنا۔ایک سرکاری اہلکار ٹھیکہ دینے کے لیے رشوت لے رہا ہے۔کسی تنظیم یا حکومت سے تعلق رکھنے والے پیسے یا اثاثوں کو چوری کرنا۔ مالی فائدے کے لیے دوسروں کو دھوکہ دینے کے لیے معلومات میں ہیرا پھیری کرنا۔ اقربا پروری اور طرفداری بھی ایک زہریلا عنصر ہے جس میں اہلیت کے بغیر خاندان کے افراد یا قریبی دوستوں کو ملازمتیں، معاہدے، یا فوائد دیناشامل ہیں کسی مستحق امیدوار کے بجائے کسی نااہل رشتہ دار کو ملازمت پر رکھنا۔ دھمکیوں کے ذریعے کسی کو رقم ادا کرنے یا خدمات فراہم کرنے پر مجبور کرنا۔ایک کسٹم افسر شپمنٹ کلیئر کرنے کے لیے رقم کا مطالبہ کرنا۔ منی لانڈرنگ اس میں صرف نوکر شاہی نہیں بلکہ بہت سے ”معززین“ بھی شامل ہیں۔ ۔ پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار بہت بلندیوں پر ہے یہ ہی وہ کاروبار جس میں بلیک منی کو وائٹ کیاجاتا ہے، بلیک منی جو رشوت سے آتی ہے رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری سے اس رقم کو وائٹ یعنی قانونی کیاجاتا ہے۔ میری وزیر اعظم شہباز شریف اور انکے خاندان میں جدہ میں رہائش کے دوران شناسائی رہی ہے اور قریب سے دیکھا ہے اور جب وہ وزیر اعلی تھے اور آج جب وہ وزیر اعظم کے منصب پر ہیں وہ اپنے فیصلوں پر مضبوطی سے عمل درآمد کرتے ہیں مگر نہ جانے کیوں IMF کی بار بار ہدائت کے باوجود کیوں یہ نوکر شاہی قابو نہ آسکی نہ ہی کوئی مضبوط قانون سازی ہوئی ، قانون موجود ہے پر عمل درآمد نہ ہوتو وہ کونسا قانون؟؟ شفافیت میں اضافے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) کی شرائط کے باوجود، کئی عوامل پاکستانی بیوروکریٹس کی اپنے اثاثوں کو ظاہر کرنے میں ہچکچاہٹ کا باعث بنتے ہیں:سول سرونٹ ایکٹ 1973 میں حالیہ ترمیم 17 سے 22 تک کے افسروں کے لیے اثاثہ جات کے اعلانات کو لازمی قرار دیتی ہے۔ IMFنے ان اقدامات کی تاثیر کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے، خاص طور پر اعلان کردہ اثاثوں کی تصدیق اور ان کے اعلانات میں تضادات والے اہلکاروں کے احتساب کے بارے میں۔ آئی ایم ایف نے ایک مضبوط خطرے پر مبنی تصدیقی نظام اور عدم تعمیل پر مناسب جرمانے کی ضرورت پر زور دیا۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے کرپشن پرسیپشن انڈیکس (CPI) 2024 کے مطابق، پاکستان 180 ممالک میں 133 ویں نمبر پر ہے، یہ نمبر ظاہر کرتے ہیں تمام تر کوششوں کے باوجود تاحال ہم ایک کرپٹ نوکر شاہی اور حکومت نظام سے بہت دور ہیں، اسکی وجہ قانون پر عمل درآمد میں کمزوری ہے، قارئیں نے دیکھا ہوگا، کہ کتنے بڑے بڑے کرپشن کے معاملا ت میڈیا کی زینت بنے مگر نتائج نہ میڈیا میں آئے نہ ہی نظر آئے۔ یہ جو معاملہ ہے شکوک پیدا کرتا ہے، جب صوبہ سندھ کی بیروکریسی کے ایک شخص میں سونے کی اینٹوں سے بھرا ہوا کمرہ دکھایا جاتا ہے تو اسکا نتیجہ کیاہوا ۔ کیا یہ ضروری ہے کہ IMF ہم سے مطالبے کرے کہ اخراجات کم کرو، کرپشن پر قابو کرو اثاثے ظاہر کرو اسی وقت ہم اس پر عمل کرینگے،ہمارے اپنے قوانین کہاں ہیں؟؟؟؟
