(تحریر: شبیر حسین لدھڑ )
ایک وقت تھا جب مسلمان صرف علمی میدان کے راہی نہ تھے بلکہ سائنسی دنیا میں انقلاب برپا کر رہے تھے۔ ان کے مدارس تحقیق گاہیں تھیں، اور ان کی مساجد میں ریاضی، فلکیات، طب، کیمیا، اور طبیعات کے اسباق دیے جاتے تھے۔ جب یورپ تاریکیوں میں گم تھا، اُس وقت بغداد، قرطبہ، بخارا، سمرقند اور قاہرہ علم و تحقیق کے روشن مینار تھے۔
تاریخ کے روشن ابواب میں مسلمان سائنسدانوں کا کردار روز روشن کی طرح عیاں ہے ، مسلمان سائنسدانوں و محققین کی لمبی فہرست ہے جنہوں نے دنیا کے علم کو نئے زاویوں سے روشناس کروایا جن میں طب کا بادشاہ علی ابن سینا (980–1037): جن کی کتاب القانون فی الطب یورپ کی یونیورسٹیوں میں صدیوں تک پڑھائی جاتی رہی۔ محمد بن موسیٰ الخوارزمی (780–850) الجبرا کے بانی، جن کے نام سے “الگورِدھم (Algorithm) نکلا۔
ابو ریحان البیرونی (973–1050) ریاضی، فلکیات، زمین پیمائی اور ارضیات میں غیر معمولی خدمات انجام دیں، ابن الہیثم (965–1040)، روشنی اور بصریات کا بانی، الزہراوی، رازی، نصیرالدین طوسی، عمر خیام اور دیگر، یہ سب اس علمی کارواں کا حصہ تھے جس نے انسانی ترقی کی بنیاد میں علمی انقلاب برپا کیا-
یہ وہ دور تھا جب علم کے دروازے کھلے تھے، اور مسلمان سائنسدان زمین و آسمان کے رازوں سے پردہ اٹھا رہے تھے۔ لیکن وقت کے ساتھ جب ہم نے علم و تحقیق کو ترک کیا، دنیا نے ہمیں بھی ترک کر دیا۔
آج جب ہم جدید دنیا کا جائزہ لیتے ہیں تو سائنس و ٹیکنالوجی میں مسلم ممالک کا حصہ نہایت کم دکھائی دیتا ہے۔ آج روزمرہ کے کاموں سے لے کر حتی کہ جنگوں میں بھی ٹیکنالوجی کا استعمال عام ہے۔ آج جب آرٹیفیشل انٹیلیجنس نے انقلاب برپا کردیا ہے مگر ان سب تحقیق و ترقی کے میدان میں مسلم دنیا اب بھی پیچھے ہے سوائے چند ایک ممالک کے- ان سب حالات میں اگر کوئی ادارہ مسلم دنیا کو دوبارہ علمی قوت دلانے کی سعی کر رہا ہے تو وہ کامسٹیک ہے، اور اس مشن کے معماروں میں سب سے نمایاں نام ہے: پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری اور ان کی ٹیم۔
کامسٹیک، او آئی سی (OIC) کے تحت سائنس و ٹیکنالوجی میں تعاون کو فروغ دینے والا اعلیٰ ادارہ ہے۔ کامسٹیک، او آئ سی کی پاکستان میں مستقل قائمہ کمیٹی ہے جس کا ہیڈکوارٹرز،اسلام آباد پاکستان میں موجود ہے۔ کامسٹیک کے چئیرمین صدر مملکت اور شریک چئیرمین وزیراعظم پاکستان ہیں۔ پچھلے پانچ برسوں میں پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری نے اس پلیٹ فارم کو مسلم دنیا کے درمیان سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے ایک فعال ذریعہ بنا دیا ہے جسے ہم بطور پُل کہہ سکتے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری نہ صرف پاکستان کے معروف سائنسدان ہیں بلکہ عالم اسلام سمیت دنیا میں ایک مؤثر اور فعال سائنسی سفیر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انہیں سائنس کے فروغ کے لیے گراں قدر خدمات کے اعتراف میں مسلم ممالک کے سب سب سے بڑے سائنسی اعزاز” مصطفےؐ پرائز” سے نوازا گیا ہے۔ حکومت پاکستان نے انہیں تمغہ امتیاز، ستارہ امتیاز اور حلال امتیاز سے نوازا، جبکہ چین کی معروف یونیورسٹی ہنان یونیورسٹی نے ان کے نام پر اپنے تحقیقی مرکز کا نام رکھا ہے۔ انہیں مختلف ممالک کی جامعات میں بطور اعزازی پروفیسر بننے کا اعزاز بھی حاصل ہے جبکہ اب تک 100 سے زائد طلبہ کو پی ایچ ڈی کروا چکے ہیں۔
پچھلے پانچ سالوں میں ان کی قیادت میں کامسٹیک نے نہ صرف مسلم دنیا کے ممالک کو سائنسی اعتبار سے قریب لایا بلکہ پاکستان کو عالمی سطح پر ایک علمی قوت کے طور پر پیش کیا۔ انہوں نے ایک ایسے دور میں مسلم سائنسدانوں اور اداروں کو جوڑا، جب بہت سی اقوام جنگ، غربت یا سیاسی انتشار کا شکار تھیں۔
نوجوان سائنسدانوں کو سپورٹ کرنے، سائنسی فروغ اور ٹیکنالوجی کی ترویج کے لیے کامسٹیک نے کئ پروگرامز شروع کیے ہیں جن سبج کی تفصیلات یہاں لکھنا مشکل ہے ہے مگر ان میں چند ایک نمایاں منصوبوں میں کامسٹیک کی جانب سے فلسطینی نوجوانوں کے لیے 5000 اسکالرشپ کا اعلان نہایت اہم قدم ہے، جس کا مقصد تعلیمی مواقع پیدا کرنا اور فلسطینی قوم کو مضبوط بنانا ہے۔ اس پروگرام کے تحت اب تک کئ فلسطنی نوجوان طلبہ و طالبات اپنی تعلیم پاکستانی جامعات میں حاصل کررپے پیں۔
کامسٹیک کنسورشیم آف ایکسیلینس،اس پروگرام کے ذریعے مسلمان ممالک کی بہترین جامعات تحقیق کے بہترین سائنسی اداروں کو جوڑا گیا ہے انہیں ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا گیا ہے تاکہ تحقیق، تربیت اور مہارتوں کا تبادلہ ہو سکے۔ اس میں پاکستان کے علاوہ ایران، ترکیہ, ملائشیا، انڈونیشیاء، مصر، اردن، نائجریا، آزربائجان، ازبکستان،ایران، بحرین اور بنگلہ دیش سمیت کئ ممالک کی نامور جامعات و تحقیقی ادارے شامل ہیں۔ اس پروگرام کے تحت مختصر و لمبی مدت کی کئ فیلوشپ، تربیتی اور اسکالرشپ پروگرام شروع کیے گئے ہیں جن کے تحت پاکستانی طلبہ کو او آئ سی رکن ممالک اور او آئ سی رکن ممالک کے طلبہ کو پاکستانی جامعات میں لایا جاتا ہے اب تک 200 سے زائد طلبہ ان پروگراموں سے مستفید ہوچکے ہیں۔
افریقہ کے لیے پروگرامز،کامسٹیک نے پروفیسر اقبال کی قیادت میں افریقی او آئ سی رکن ممالک خاص کر کم ترقی پزیر (LDCS) ممالک کے لیے جامع اور ہنگامی پروگرام شروع کیے ہیں جن میں نائیجر، ماریطانیہ، سینیگال، صومالیہ، گیمبیا، برکینا فاسو، بینن، سوڈان، چاڈ، اور دیگر ممالک شامل ہیں- ان میں سائنسی تعلیم کے فروغ، اسکالرشپ، اور ٹیکنالوجی ٹرانسفر کے لیے پروگرامز جاری ہیں۔ کامسٹیک نے براعظم افریقہ میں لیبارٹریز، ورکشاپس اور ٹریننگ مراکز بھی قائم کیے ہیں۔ کامسٹیک نے ایک انقلابی طبی مہم شروع کی ہے جس کا مقصد سفید موتیے کے علاج کو آسان اور سستا بنانا ہے۔ ان میں اب تک 1200 سے زائد افراد کے مفت آپریشن کیے گئے جبکہ افریقہ کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے
18 ماہرین چشم کو ذیابیطس سے متعلقہ آنکھوں کی بیماری (Diabetic Retinopathy) اور گلوکوما کے علاج پر مبنی پاکستان میں ایک سالہ خصوصی تربیت دی گئ،
کامسٹیک نے ماحولیات کے مسائل پر مسلم دنیا کو متحرک کرنے کے لیے مشترکہ تحقیقی اقدامات شروع کیے۔ یہ پروگرام موسمیاتی تبدیلی کے اثرات، پائیدار زراعت، اور سبز توانائی جیسے موضوعات پر مبنی ہے پانی کی کمی اور آلودگی جیسے اہم موضوعات پر کامسٹیک نے ریسرچ نیٹ ورکس قائم کیے، جس میں او آئ سی ممالک کے سائنسدان مل کر حل تلاش کرتے ہیں۔ حال ہی میں کامسٹیک میں 9ویں بین الاقوامی آبی کانفرنس اس کی مثال ہے جبکہ اس سے پہلے او آئ سی کے آبی مراکز کی بڑی کانفرنس بھی کامسٹیک میں منعقد ہوئ۔
جیسا کے چین پاکستان کا عظیم دوست ہے، چین کی ٹیکنالوجی نے دنیا بھر میں۔انقلاب برپا کیا ہے، کامسٹیک نے چین کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے چین کی نامور جامعات کے ساتھ تحقیق کے تبادلے اور فیلوشپ کے پروگرام شروع کردیے ہیں جس کے تحت رکن ممالک کے نوجوان چینی جامعات میں فیلوشپ پر تحقیق کررہے ہیں۔ شام، یمن، لیبیاء ، لبنان، یمن اور افغانستان جیسے بحران زدہ ممالک سے تعلق رکھنے والے سائنسدانوں کو تحقیق جاری رکھنے کے لیے سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ یہ پروگرام ان سائنسدانوں کی مہارت کو محفوظ رکھتے ہوئے انہیں دوسرے مسلم ممالک میں سائنسی سرگرمیوں سے جوڑتا ہے۔
کامسٹیک اور پروفیسر اقبال چوہدری کی خدمات نے پاکستان کو دنیا کے سامنے ایک علمی اور ترقی پسند چہرہ کے طور پر پیش کیا ہے۔ جب دنیا پاکستان کو صرف ایک ایٹمی ملک یا سیاسی خبروں کے حوالے سے جانتی تھی، ڈاکٹر چوہدری نے اسے ایک سائنسی قیادت کے روپ میں متعارف کرایا۔
مسلم دنیا کو آج بھی ویسا ہی علمی انقلاب درکار ہے جیسا ماضی کے عباسی، فاطمی اور اندلسی ادوار میں دیکھا گیا۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ کامسٹیک جیسے ادارے کسی ملک کا تعارف ہوتے ہیں، پاکستان کامسٹیک کے پلیٹ فارم کا موثر استعمال کرتے ہوئے مسلمام ممالک اور او آئ سی ممالک کی قیادت کرسکتا ہے کیونکہ کامسٹیک کی چئرمین شپ پاکستان کے پاس ہے، کم فنڈنگ، وسائل کی کمی کے باوجود کامسٹیک نے گزشتہ پانچ سالوں سے جس قدر پاکستان کے مثبت پیغام کی تصویر پیش کی ہے وہیں پر عملی طور پر بھی جتنے منصوبے شروع کیے ہیں وہ قابل تحسین ہیں۔
بڑھتی ترقی کے بعد اب سائنس ڈپلومیسی کا کردار بڑھ گیا ہے، لہزا حکومت پاکستان کامسٹیک کے کردار کو مزید وسعت دے، کامسٹیک کو سپورٹ کرے اور رکن ممالک کو اپیل کرے کہ وہ کامسٹیک جیسے اداروں میں دلچسپی کو بڑھاتے ہوئے کامسٹیک کو سپورٹ کریں۔ اس وقت دنیا روایتی سفارتکاری سے ٹورازم سفارتکاری، سائسی سفارتکاری اور ٹیکنولوجیکل سفارتکاری کی طرف بڑھ رہی ہے لہزا پاکستان کی حکومت کو کامسٹیک جیسے اداروں کی اہمیت پہچانتے ہوئے مسلم دنیا کی سائنس ڈپلومیسی کی باگ دوڑ کو سنبھالنا ہوگا۔ بلاشبہ پاکستانی دماغ دنیا کے بہترین دماغ ہیں۔ پاکستانی سائنسدان دنیا کے بہترین سائنس دان ہیں ہمیں صرف انہیں تعاون فراہم کرنا ہے۔
(مصنف اس وقت کامسٹیک سیکرٹریٹ میں بطور میڈیا کوآرڈینیٹر کے اپنے فرائض سرانجام دے رہا ہے)