واشنگٹن۔چین مصنوعی ذہانت (AI) کی ٹیکنالوجی میں امریکہ کے معیار تک پہنچنے کے انتہائی قریب ہے، اور دونوں ممالک کے درمیان فرق اب صرف تین سے چھ ماہ رہ گیا ہے۔
یہ بات سابق ٹرمپ انتظامیہ کے عہدیدار اور موجودہ وائٹ ہاؤس مشیر برائے AI اور کرپٹوکرنسی، ڈیوڈ ساکس نے کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ چین امریکی سطح کی AI ٹیکنالوجی کی تیاری کے دہانے پر ہے۔
ڈیوڈ ساکس واشنگٹن میں منعقدہ AWS سمٹ سے خطاب کر رہے تھے، جہاں انہوں نے کہا کہ چین اور امریکہ کے درمیان AI کے میدان میں فرق اتنا زیادہ نہیں جتنا عام طور پر تصور کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ “چین اب AI میں ہم سے برسوں پیچھے نہیں رہا۔ ممکن ہے وہ صرف 3 سے 6 ماہ میں یہ خلا پُر کر لیں۔”
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر امریکہ نے مصنوعی ذہانت پر حد سے زیادہ ضوابط نافذ کیے تو چین کو امریکی اختراعات سے آگے نکلنے کا موقع مل سکتا ہے۔
ڈیوڈ ساکس کے یہ بیانات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب واشنگٹن میں چین کے تکنیکی عزائم، خاص طور پر حساس شعبوں جیسے مصنوعی ذہانت، کوانٹم کمپیوٹنگ اور دفاعی استعمال، پر تشویش میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔