(تحریر: مصطفےٰ صفدر بیگ)
دوست احباب اور قارئین کا یہ سوال کہ میں ایران اسرائیل جنگ پر تسلسل سے کیوں نہیں لکھ رہا، میرے لیے باعثِ اطمینان بھی ہے اور باعثِ فکر بھی ۔۔۔۔۔۔ اطمینان اس لیے کہ میرے قارئین مجھے خبروں اور تجزیوں کا معتبر ذریعہ سمجھتے ہیں اور فکر اس لیے کہ یہ وہ موضوع ہے جس پر لکھنے سے پہلے سینکڑوں بار پرکھنا اور پر تولنا ضروری ہے۔
میں مانتا ہوں کہ جنگ میں پہلا قتل سچ کا ہوتا ہے۔ جیسے ہی توپوں کا دھواں اٹھتا ہے، خبر کی صداقت پر پردے پڑنے لگتے ہیں۔ ایسے میں بہت کچھ لکھ دینا، ہر لمحہ اپڈیٹ دینا یا جذباتی تجزیے کرتے رہنا دراصل اس جنگی پراپیگنڈے کا حصہ بن جانا ہے جس کا مقصد حقائق کو مسخ کرنا اور عوامی رائے کو اپنی مرضی سے موڑنا ہوتا ہے۔
میری کوشش ہمیشہ یہی رہی ہے کہ جو لکھوں وہ (اپنی تحقیق، علم اور مطالعے کی بنیاد پر) درست لکھوں، جو کہوں وہ ارادی طور پر غلط نہ ہو۔
ایران اسرائیل جنگ جیسے حساس موضوع پر اگر میں بھی ہر نئی افواہ کو خبر بنا کر قارئین کے سامنے رکھ دوں تو مجھ میں اور سوشل میڈیا پر پھیلنے والی فیک نیوز میں کوئی فرق باقی نہیں رہے گا۔
آج کل فیک نیوز کی رفتار میزائلوں سے کم نہیں۔ بعض اوقات تو یہ اتنی مہلک ہوتی ہیں کہ یہ دو ملکوں کے درمیان ایٹمی جنگ بھی کروا سکتی ہیں۔
ایک جعلی وائرل ویڈیو، ایک پرانی تصویر کو نئے سیاق میں پیش کر دینا یا کسی جھوٹی خبر کو حقیقت بناکر بیچ دینا، یہ سب کچھ اب بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔
بدقسمتی سے سوشل میڈیا صارفین کی بڑی اکثریت تحقیق کا تکلف نہیں کرتی اور بغیر سوچے سمجھے اسے آگے بڑھا دیتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سنجیدہ قارئین بھی کنفیوژن کا شکار ہوتے ہیں اور اصل حقیقت کہیں دب کر رہ جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ میں نے اصولی طور پر فیصلہ کیا ہوا ہے کہ ہمیشہ ناپ تول کر لکھا جائے، بسیار نویسی سے پرہیز کیا جائے، جب تک معتبر ذرائع سے تصدیق نہ ہو، اس وقت تک جنگی حالات پر لکھنے سے گریز کیا جائے۔
آپ روزانہ ہزاروں ویڈیوز، تصاویر اور دعوے دیکھتے ہیں۔ ان میں کتنے حقیقت پر مبنی ہیں؟ شاید دس میں سے ایک؟ باقی سب جھوٹ، جذباتی اشتعال انگیزی اور سیاسی پراپیگنڈا ہوتا ہے۔
ایسی صورتحال میں لکھنے کا مقصد سچ کو آشکار کرنا ہونا چاہیے نہ کہ جھوٹ کی آگ میں تیل ڈالنا۔
اسی لیے میں نے بارہا اپنے قارئین سے بھی یہی کہا ہے کہ بغیر تحقیق کے کوئی ویڈیو، کوئی تصویر یا کوئی خبر نہ تو کاپی پیسٹ کریں اور نہ ہی شیئر کریں۔ آپ کا ایک کلک کسی غلط بیانیے کو لاکھوں لوگوں تک پہنچا دیتا ہے۔
یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ آج کے مہذب دور میں کسی بھی آزاد ملک پر طاقت کے زور پر حملہ کرنے کو نہ تو کوئی آئین اجازت دیتا ہے اور نہ ہی کوئی عالمی قانون۔ اخلاقیات اور انسانیت بھی اس کی حمایت نہیں کرتے۔ خواہ حملہ کرنے والا کوئی بھی ہو اور حملہ سہنے والا کوئی بھی۔
جو لوگ اس جنگ کو صرف مذہبی یا فرقہ وارانہ عینک سے دیکھ رہے ہیں، وہ دراصل اس اصولی حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں کہ ظلم کو کسی بھی وجہ سے جواز نہیں دیا جاسکتا۔ طاقتور ہونا ظالم ہونے کا پروانہ نہیں۔
جس دنیا نے دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوامِ متحدہ جیسے ادارے قائم کیے، اس کا فلسفہ ہی یہی تھا کہ آئندہ طاقت کی زبان کو قانون پر فوقیت نہ دی جائے۔ بدقسمتی سے آج بھی طاقتور ریاستیں جب چاہیں کمزور قوموں کو روند دیتی ہیں اور انسانی حقوق کے علَم بردار تماشائی بنے رہتے ہیں۔
لہٰذا میری گزارش ہے کہ مجھ سے بسیار نویسی کی توقع نہ کریں، البتہ جب بھی، جو بھی اور جتنا بھی لکھوں گا، سوچ کا دامن تھام کر لکھوں گا۔
اسرائیل کی اس جارحیت پر بھی ضرور لکھوں گا۔ لیکن جب میرے قلم کو یقین ہوگا کہ میں جو لفظ قرطاس پر بکھیر رہا ہوں، وہ سچ کی مشعل ہے، کسی افواہ کا ایندھن نہیں۔
یاد رکھیں کہ جنگ میں سچ تلاش کرنا مشکل ترین کام ہے لیکن میرے لیے یہی سب سے بڑا فرض ہے۔ جو لوگ روزانہ کے سنسنی خیز تجزیے چاہتے ہیں، ان کے لیے سوشل میڈیا اور یوٹیوب پر بے شمار ذرائع موجود ہیں۔ لیکن اگر آپ کو حقیقت چاہیے تو پھر صبر کیجیے اور تحقیق کیجیے۔ یہی میرا اصول ہے، یہی میرا وعدہ ہے۔