پینڈوز اینڈ ڈاگز آر ناٹ الاوڈ ، مصطفےٰ صفدر بیگ کا کالم

میں 18 سال پہلے مر گیا تھا ، مصطفےٰ صفدر بیگ کا کالم

میں 18 سال پہلے مر گیا تھا، مصطفےٰ صفدر بیگ کا کالم
میرے لیے گزشتہ 18 برس “بونس” کے 18 برس ہیں اور آگے جتنے سال ، مہینے ، دن یا سانس قسمت میں ہوئے، وہ سب بونس کے ہوں گے۔
کیونکہ
جس مٹی سے مجھے گوندھا گیا تھا، وہ مٹی 18 سال پہلے ہم ہمیشہ کیلئے زمین کے حوالے کر آئے تھے۔
آج پھر اُسی مٹی کی خوشبو میرے رگ و پے میں اتر رہی ہے جو میرے وجود کا سنگِ بنیاد تھی۔
آج پھر بچپن کا وہ صحن، وہ دھوپ، وہ ٹھنڈی چھاؤں، سب اک اک کرکے میری روح کے دریچوں پر دستک دے رہے ہیں۔
آج پھر مجھے ماں جی کی یاد کچھ زیادہ ہی شدت سے آرہی ہے۔
وہ ماں جو فقط ماں نہ تھی، وہ سائباں تھی، وہ دعا تھی، وہ دعا کی قبولیت تھی، وہ وہ سب کچھ تھی جس کا نعم البدل ابھی تک دنیا کی کسی لغت میں نہیں مل سکا۔
ایک زمانہ تھا جب دوپہر کی جھلستی دھوپ میں باہر سے گھر لوٹتا تو دروازے پر ماں جی کی صورت میں زندگی کی پہلی محبت کھڑی ملتی۔
اُن کی پلکوں پر دعائیں ہوتیں، ہونٹوں پر وہی مانوس مسکراہٹ اور ہاتھوں میں میرے لیے کسی ٹھنڈے مشروب کا گلاس ۔۔۔۔۔
کتنے سکون سے سر اُن کی گود میں رکھ کر ساری تھکن اتار دیتا تھا۔
کیا خبر تھی کہ ایک دن یہ گود قبر کی مٹی میں جا چھپے گی اور میں اپنی تھکن لے کر در در مارا پھروں گا اور پھر تھکن بدن کا حصہ بن جائے گی۔
بچپن کی راتوں میں ماں جی کی نرم آواز میں سنائی دیتی لوریاں ۔۔۔۔۔ وہ دعائیں جو ماں جی چپکے چپکے مانگتی تھیں کہ میرا بیٹا کبھی تھکے نہیں، کبھی رکے نہیں ۔۔۔۔۔ وہ نصیحتیں جو اکثر میں ہنس کر ٹال دیتا تھا ۔۔۔۔۔ لیکن آج جب زندگی تھک کر بیٹھتی ہے تو اُنہی نصیحتوں کی چھاؤں میں آرام ملتا ہے۔
پھر وہ دن بھی آیا جب ماں جی کی صحت نے اچانک منفی اشارے دینے شروع کیے ۔۔۔۔۔ ہم نے سوچا شاید کوئی عام سی بیماری ہے، وقت گزر جائے گا اور شفا مل جائے گی مگر جب ڈاکٹروں نے ہیپاٹائٹس کے بعد کینسر کی تشخیص کی تو لگا جیسے آسمان ہمارے سروں پر آن گرا ہو ۔۔۔۔۔
میری ماں! وہ مجسم صبر تھیں جنہوں نے کبھی زخم کاٹ کر بھی زبان سے آہ نہ نکالی ۔۔۔۔۔ انہیں اس موذی مرض نے لمحہ بہ لمحہ کاٹ کر رکھ دیا تھا۔
کینسر کی تکلیف نے جس بے دردی سے ماں جی کے بدن کو توڑا تھا، اُسی شدت سے میں اندر ہی اندر بکھرتا اور ٹوٹتا چلا گیا ۔۔۔۔۔ دعا اور دوا دونوں ناکام ٹھہرے ۔۔۔۔۔ ہم بہن بھائی کچھ نہ کرسکے ۔۔۔۔۔ اور آخر وہ لمحہ آگیا جب ماں جی نے اپنی آنکھوں کی گہرائیوں میں مجھے اُتارا اور پھر وہ روشنی بجھ گئی ۔۔۔۔۔ وہ روشنی جو میری دنیا کو منور رکھتی تھی ۔۔۔۔۔۔ اُس روز میری چھت گرگئی، میری زمین بے نشاں ہوگئی ۔۔۔۔۔ میری راتیں اندھیری ہوگئیں ۔۔۔۔۔
لوگ کہتے ہیں کہ وقت سب زخم بھر دیتا ہے لیکن جو زخم ماں جی کی جدائی نے دل کے نہاں خانے میں لگا دیا وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ کچھ اور گہرا ہوتا چلا جاتا ہے۔
آج بھی جب ماضی کی پگڈنڈی پر یادوں کی چادر بچھتی ہے تو ماں جی کی مہک سے دل کا گوشہ گوشہ معطر ہوجاتا ہے۔
میری ماں فقط ماں نہ تھیں، وہ سراپا دعا تھیں، سراپا محبت تھیں، سراپا سکون تھیں۔
ان کے دوپٹے کی خوشبو میں بہشت کی ہوائیں تھیں ۔۔۔۔۔ ان کے ہاتھوں کی لکیروں میں میری تقدیر کا سکون رقم تھا۔
میں نے اپنی ماں کو کبھی تھکتے دیکھا نہ کبھی شکوہ کرتے سنا ۔۔۔۔۔ اُن کی پیشانی پر وقت کی کڑی دھوپ بھی چھاؤں بن کر پڑتی تھی ۔۔۔۔۔ اُن کے چہرے کی شفاف مسکراہٹ، گویا دعا کی قبولیت کی ضمانت تھی۔
آج اٹھارہ برس بیت گئے ہیں ۔۔۔۔۔ سوچتا ہوں وقت نے کیا کچھ بدلا؟ بس چہرے بدل گئے ہیں، عمریں بدل گئیں ہیں، لیکن دل کے زخم وہیں کے وہیں ہیں۔
کسی محفل میں ماں کی یاد آئے تو ہنسی رک جاتی ہے ۔۔۔۔۔ کسی بچے کو ماں کے گلے لگتا دیکھوں تو دل کے اندر ایک ہُوک سی اُٹھتی ہے ۔۔۔۔۔ کسی کی ماں دعا دیتی ہے تو مجھے اپنی ماں کی دعا کی خوشبو گھیر لیتی ہے۔
لیکن آج کہاں ہے وہ گود؟ کہاں ہیں وہ ہاتھ؟ کہاں ہے وہ لمس؟
اب تو بس مٹی کی سِل ہے اور میں ہوں۔
کاش میں ماں جی سے کہہ سکتا کہ آپ کے بعد میرا ہر سفر اُجڑ گیا ۔۔۔۔۔ میں نے کامیابیاں دیکھیں، عزت دیکھی، شہرت دیکھی ۔۔۔۔۔ مگر سب بے ذائقہ رہیں ۔۔۔۔۔ کیونکہ جس کے قدموں میں سر رکھ کر میں یہ سب سمیٹتا تھا، وہ ہستی اب اُس جہاں میں ہے جہاں سے کوئی لوٹ کر نہیں آتا۔
لوگ کہتے ہیں وقت مرہم ہے ۔۔۔۔۔ میں کہتا ہوں وقت ایک سنگدل اُستاد ہے ۔۔۔۔۔ جو ماں کے بغیر جینا تو سکھا دیتا ہے ۔۔۔۔۔ مگر اُس کی کمی کی تپش کبھی کم نہیں کرپاتا۔
ماں جی !
آپ کی قبر کی مٹی کی خوشبو میری ہڈیوں میں بسی ہے ۔۔۔۔۔ آپ کا دیا ہوا حوصلہ میری رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے ۔۔۔۔۔ آپ کی نرم مسکراہٹ میرے ہر دکھ کا مرہم ہے ۔۔۔۔۔
ماں جی !
آپ دنیا سے چلی گئیں، مگر میری دنیا میں آپ آج بھی ہر جگہ موجود ہیں ۔۔۔۔۔
کبھی دعاؤں کی لو میں
کبھی تنہائی کی راہگزر میں
کبھی خواب کی نرم دہلیز پر
آج 18 سال بعد بھی آپ کو یاد کرتے ہوئے میری آنکھوں کے آنسو کہہ رہے ہیں
میری ماں جیسی دنیا میں کوئی اور ماں نہیں
ماں جی !
آپ کی محبت جیسی محبت کوئی اور کہاں؟
لوگ کہتے ہیں کہ
جس گھر میں ماں نہ ہو تو وہ گھر گھر نہیں رہتا، قبرستان بن جاتا ہے۔
میں نے اس فقرے کی سچائی اپنے ہر سانس کے ساتھ جھیلی ہے۔
اٹھارہ برس کی اس مسافت کے دوران ۔۔۔۔۔ نجانے کتنی بار اُمید نے دل سے کہا کہ ابھی دروازہ کھلے گا اور ماں پکارتے ہوئے میرے سر پر ہاتھ رکھ دے گی اور پوچھے گی۔
مصطفےٰ! پریشان کیوں ہو؟
مصطفےٰ! مرد ہوکر روتے کیوں ہو؟
مصطفےٰ! اٹُھو، بہادر بنو!
مگر اب یہ آواز نہیں آتی! اب مصطفےٰ کہہ کر پٌکارنے والا کوئی نہیں!
بے شک کب کسی نے قبر کی مٹی کو پلٹتے دیکھا ہے؟
کب کسی نے وقت کو پلٹتے دیکھا؟
اب جب یاد کرتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ میری ماں مجھ میں بستی ہے ۔۔۔۔۔ میری ہنسی میں ان کا لمس ہے ۔۔۔۔۔ میری آنکھوں میں ان کی دعا کا سایہ ہے ۔۔۔۔۔ میرے حوصلے میں ان کی قربانی کا عکس ہے۔
کینسر نے ان کے جسم کو شکست دی تھی ۔۔۔۔۔ ان کی محبت کو نہیں ۔۔۔۔۔ ان کی محبت آج بھی میری چھت ہے، میری ڈھال ہے، میرا ایمان ہے۔
ماں جی !
کاش میں آپ کو بتا سکتا کہ آپ کے بنا یہ زندگی کتنی ادھوری ہے۔
کاش آپ ایک پل کے لیے لوٹ آتیں، میری پیشانی کو چوم لیتیں اور میرے سر پر ہاتھ رکھ دیتیں۔
ماں جی !
آپ کے بغیر گزشتہ 18 برس “بونس” کے 18 برس رہے ہیں اور جتنے بھی آگے زندگی کے دن قسمت میں ہوئے، وہ سب بونس کے دن ہوں گے۔
ورنہ میں تو 18 سال پہلے مر گیا تھا۔
اللہ کریم! آپ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائیں، آمین!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں