سیاح نہیں گورننس ڈوب گئی

تحریر شاہد محمود
ستائیس جون کو سوات میں ایک دلخراش واقعہ پیش آیا جہاں اٹھارہ افراد دریائے سوات کی خونخوار لہروں کی نظر ہوگئے اور ان میں پندرہ افراد ایک ہی خاندان کے بتائے جارہے ہیں اور عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ڈیڑھ درجن کے قریب افراد دو گھنٹے تک دریا کی لہروں کے بیچ ایک ٹیلے پر کھڑے مدد کے لئے پکارتے رہے لیکن کسی طرح کی مدد نہ پہنچ سکی جبکہ ڈپٹی کمشنر سوات کا کہنا ہے کہ شہری انتظامیہ واقعہ کی خبر ملنے کے آدھا گھنٹہ کے اندر اندر موقع پر پہنچ چکی تھی لیکن شاید ان کے پاس اس طرح کی ایمرجنسی سے نمٹنے کا سازو سامان بھی موجود نہیں تھا اس لئے وہ بھی باقی افراد کے ساتھ انسانوں کو لہروں کی نظر ہوتے ہوئے دیکھتے رہے اور ایک بڑا سانحہ رونما ہو گیا جس میں معصوم لوگ موت کے منہ میں چلے گئے اور عین اس وقت جب سوات میں لوگ بے یارو مددگار مر رہے تھے تو خیبر پختونخوا کا وزیر اعلیٰ عدالت میں اپنے قائد عمران خان سے ملاقات کے لئے وقت مانگتا پھر رہا تھا ۔ ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات بھی بڑی نرالی ہیں اور پوری مشینری چند لوگوں کی خدمت پر مامور ہے جبکہ چوبیس کروڑ افراد جگہ جگہ موت سے دوچار ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ دنیا کی سپر پاور جہاں ہزاروں میل دور بیٹھے دشمن کے ایک ایک ٹھکانے پر نظر رکھنے کی اہلیت موجود ہے اور کسی بھی واقعہ کے چند سیکنڈوں میں ردعمل فورس حرکت میں آجاتی ہے اور چند منٹوں میں ڈرون دہلی پہنچ جاتے ہیں لیکن عام آدمی کے لئے گھنٹوں مدد کے لئے چیخ و پکار کرنے پر بھی اگر مدد نہیں پہنچتی ہے تو مطلب صاف ہے کہ عام آدمی کے لئے اس ملک میں کچھ نہیں بچا ہے سوائے اس کے کہ ہرسال کھربوں روپے کے نئے ٹیکس لگا کر آہستہ آہستہ لوگوں کو غربت کے گڑھے میں دفن کیا جارہا ہے۔ آج سے ٹھیک تین سال پہلے بھی اسی طرح پانچ بھائی کئی گھنٹے دریا کے بیچ مدد کے لئے پکارتے رہے لیکن کسی نے ان کی آوز نہ سنی اور وہ دریا کے پانی میں بہہ گئے اور ہمارے حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی بدقسمتی ہے کہ مرنے کے بعد ان افراد کے لئے بے حس حکمرانوں نے پندرہ لاکھ روپے فی کس کا اعلان کرکے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہر مرنے والے کی قیمت ہے جبکہ زندہ افراد کے لئے اس ملک میں کچھ نہیں ہے جبکہ یہی سیاح جب تفریحی مقامات کی طرف سفر کرتے ہیں تو پٹرول، گاڑیوں، ہوٹلوں، اور کھانے پر ہزاروں روپے ٹیکس دے کر پہنچتے ہیں اور پھر دوران سفر ہر چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہزاروں روپے کے حساب سے ٹول ٹیکس وصول کئے جاتے ہیں جبکہ ان لوگوں کو نہ تو سہولیات میسر آتی ہیں اور نہ ہی کسی ایمرجنسی کے دوران کوئی انتظامیہ ان کا ساتھ دیتی ہے اور پاکستان اس وقت وہ استحصالی نظام بن چکا ہے جہاں عوام کو اپنے لئے سکیورٹی بھی خود رکھنی ہے ، بچوں کی تعلیم، علاج کی سہولت بھی خود پیدا کرنی ہے اور یہاں تک کہ گھروں کے اندر پانی اور بجلی کا انتظام بھی خود ہی کرنا ہے جبکہ حکومت کی فراہم کردہ بجلی پر مافیا کے ٹیکس اور اشرافیہ کی عیاشیاں شامل کرکے اسے سونے کے بھاؤ بیچا جاتا ہے۔ بات چلی تھی سوات میں ڈوب کر مرنے والے اٹھارہ افراد کی جو اطلاعات کے مطابق دو گھنٹے تک دریا کے پانی میں ایک ٹیلے پر پھنسے ہوئے تھے اور چاروں اطراف پانی کی بے رحم لہریں تھیں اور وہ زندگی کی بھیک مانگتے بڑے دریائی ریلے میں بہہ گئے اور شہری انتظامیہ ، صوبائی حکومت اور وفاق کے سارے محکمے تماشہ دیکھتے رہے اور اب ان معصوم افراد کے مرنے کے بعد سیاسی سکورنگ میں مصروف ہیں۔ ہم مانتے ہیں کہ متاثرہ خاندان کو دریا کے اندر تک نہیں جانا چاہیئے تھا لیکن کیا کوئی بھی نظام ایسا موجود ہے جو لوگوں کو انتباہ کرتا رہے کہ آپ نے دریا سے کتنی دور تک موجود رہنا ہے جبکہ انھیں دریاؤں کے راستوں اور کناروں میں ہوٹلوں کی بھرمار ہے اور یہ سب قبضہ مافیا انتظامیہ سے ملی بھگت کرکے ہی دریاؤں پر قبضہ کئے بیٹھے ہیں اور اس وقت بھی متاثرہ افراد دریا کنارے واقع ہوٹل پر ناشتہ کرتے ہوئے ہی دریا کی سمت بڑھے تھے لیکن ہوٹل انتظامیہ تک نے انھیں روکنے کی کوشش نہیں کی اور میدانی علاقے کے لوگوں کو پہاڑوں کے دریاؤں کے روئیے معلوم نہیں ہوتے ہیں اس لئے اسے کوتاہی سے زیادہ لاعلمی کہنا چاہئیے جبکہ شہری انتظامیہ جس نے دفعہ 144 لگا کر بعد میں عملدرآمد میں کوتاہی برتی ہے تو اس انتظامیہ کو کون پوچھے گا۔ یہ اٹھک بیٹھک کا نظام جہاں سارے بے حس افراد انسانوں کی حفاظت ہر مامور ہیں اصل میں اپنے لئے مال و دولت اور عیاشیاں خریدنے میں مصروف ہیں اور فارچونر گاڑیوں میں بیٹھے ڈپٹی کمشنر کے پاس حل کوئی نہیں ہے۔ صرف چند رسیاں، کچھ ڈرون اور لائف جیکٹیں انسانوں کو بچا سکتی تھیں اور ایک آدھ کشتی بھی افراد کی زندگی بچا سکتی تھی لیکن چند ہزار کے زندگی بچانے والے آلات سے زیادہ اربوں روپے کی گاڑیاں اہم ہیں تبھی تو یہ نظام خود ایک خونخوار بھیڑیا بن چکا ہے جس کے نوکیلے دانت معصوموں کا خون چو ستے ہیں۔ یقین جانئیے علی امین گنڈا پور اور شہباز شریف جیسے حکمرانوں کے لئے یہ خون کا کھیل محض تفریح کا کھیل تماشہ ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں