میں اہم ہوں یا تھا۔ یہ ہی میرا وہم تھا

(تحریر:امیر محمد خان)
اڈیا لہ کے کپتان کی ہمشیرہ علیمہ خان صاحبہ نے پی ٹی آئی کی سیاسی قیادت، اور وکلاء قیادت کی کارکردگی سے مایوس ہوکر کہہ دیا کہ عمران خان اب سیاست سے مائینس لگتے ہیں، انکا بیان بہت مایوس انداز میں تھا جسکا بھائی سال سے زائد جیل میں ہو اس پر سنگین مقدمات ہوں، نااہل قسم کی دکلاء ٹیم جو قانون پر کم اور نفرت انگیز سوشل میڈیا کے زیر اثر ہوں او ر سوشل میڈیا کی بے پرکی خبروں نیز اپنے موکل ء کے صبح شام بدلتے ہوئے بیانات اس بھاری معاوضہ لینے والی ٹیم کیلئے مشکلات پیدا کرر ہی ہیں، نامور وکلاء کی روزی روٹی کا بندوبست ہے شائد وہ بھی اس تاخیر سے خوش ہوں، بقول سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری کاکہنا ہے کہ پارٹی نے اب تک ایک مضبوط میڈیا کے بجائے اپنا فنڈ وکلاء پر لگا دیا ہے،مائینس ون کا ذکر پاکستان کی سیاست میں نیا نہیں پہلے کئی لیڈران اسکا شکار رہے ہیں مگر انہوں نے اتنے شدید بیانئے نہیں بنائے جو ملک اور فوج کے حوالے سے منفی یا ملک دشمنی پر مبنی ہوں، اوراسکے بعد معصوم خواہش کہ میں سیاسی لوگوں سے نہیں بلکہ سیاسی لوگوں کو چلانے والوں سے مذاکرات کرونگا (انھوکا لاڈلہ کھیلن کو مانگے چاند)شاید کپتان کے ذہن میں یہ ہے کہ جسطرح انہوں نے حکومت یا حکومت میں آنے کیلئے وردی کا سہارا لیتے ہوئے حکومت کی یا اقتدار میں آئے وہی معاملات آج بھی ہیں جبکہ اب ایسا نہیں ہے بھائی۔ اس گھر کو آگ لگ گئی اس گھر کے چراغ سے کے مصداق سب کھیل خود بگاڑا، کسی بھی موقع پر کچھ ایسا نہیں کیا کہ لگے کہ کوئی سیاسی جماعت ہے جس کے کوئی ذیادتی کررہا ہے ایک تعلیم یافتہ اور بیرونی دنیا میں مشہور (کرکٹ کے حوالے سے) شخص کی سیاست میں آمد کو ملک کے نوجوانوں نے لبیک کہا مگر انہیں پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کس کام پر لگانے کی کوشش کی، جیسے بیرون ملک سے ذرمبادلہ بنکوں اور قانونی طریقوں سے نہیں بلکہ ہنڈی سے بھیجو، بجلی کے بل ادانہ کرو،پھاڑ دو وغیرہ وغیرہ یہ کونسے محب وطنی کے بیانئے تھے افواج پاکستان کے ریٹائیرڈ جنرل فیض کی رہنمائی میں تحریک چلاتے ہوئے موجودہ فیلڈ مارشل کو آرمی چیف بنائے جانے کے معاملے میں 9 مئی کو دہشت گردی کرائی اور ملک کے بے شمار نوجوانوں، گھر کے اکلوتے معاشی سہاروں کو گرفتارکرایا جو تاحال سزاؤں کے منتظر ہیں یہ تو ہمارا عدالتی نظام ہی ماشااللہ ہے کہ تاحال فیصلے نہ ہوسکے ۔ موصوف کی سیاست نے ملک کے نوجوانوں کو مایوس کیا ، موصوف تاحال اس خوش فہمی کو اپنے ذہن میں لئے بیٹھے ہیں اور حرکات و سکنات بتاتی ہیں کہ ”میں اہم تھا ، یہ ہی میرا وہم تھا “ انہیں یہ ماننا پڑے گا ۔ میں اہم ہوں یا تھا یہ ہی خوش فہمی ہے جو اقتدار میں رہ کر ہر سیاسی لیڈر سوچتا ہے، وہ کرسی چاہے پاکستان کی تاریخ کے واقعی عوامی لیڈر ذولفقار علی بھٹو چونکہ ان سے زیادہ پاکستانی سیاست میں کوئی عوام میں مقبو ل نہیں رہا اس سے وہ سب لوگ اندازہ لگالیں جو ابھی تک ”میں اہم تھا، یہی وہم تھا“ کے نشے میں ڈوبے رہتے ہیں۔ اب علیمہ خان نے خود کہہ کر کارکنوں کے دل توڑ دیے ہیں جن کو خوش فہمی تھی کہ خان سے تو پاکستان ہے، ایسا کچھ بھی نہیں۔ ہزاروں پرندے آتے ہیں، چہچہاتے ہیں اور گزر جاتے ہیں باغ جہاں ہے وہیں رہتا ہے۔ زبردستی کوئی مائنس نہیں ہوتا، اپنی غلطیاں اسے مائنس کرتی ہیں۔ اصلاح ہو جائے تو بھی کام درست ہونے لگتے ہیں۔مگر یہ بیانیہ کبھی قابل عمل نہیں رہا کہ میں ہوں تو پاکستان ہے، موجودہ جیل سے باہر قیادت یا تو اپنا ”بندوبست کررہے ہیں یا کرچکے ہیں“ وہ جیل نہیں جانا چاہتے، خاص طور پر وکلاء قیادت تو اپنے رزق کو خود لات نہیں مارنا چاہتی،اسلام آباد پر مسلح ہونے کے دعوے، اور کارکنوں کو سڑک کے درمیان رات کو بھاگ جانے سے کیا کارکن مایوس نہیں ہونگے، یہ وجہ ہے کہ اعلانا ت کے باوجود اب یہ قیادت سڑکوں پر آنے کی دھمکی تو سے سکتی ہے مگر عوام کو سڑکوں پر لانے کی خام خیالی اپنے ذہنوں سے نکال دے ، وزیر اعلی سرحد کا معاملہ شکوک و شبہات سے بھر پور کارکنوں کے ذہن میں ہے وہ انکی بات کو اب سنجیدہ نہیں لیتے کہ وہ نہ جانے کس ٹیم کی جانب سے کھیل کررہے ہیں؟؟وزیر اعلی سرحد علیمہ خان کے بیانات کو خاطر میں لاتے اسی طرح علیمہ خان وزیر اعلی کی بیانات کو خاطر میں نہیں لاتیں جب عمران خان یا ان کی بہنیں عوامی بیانات دیتے ہیں جو غلط، جذباتی، یا پارٹی بیانئے سے متصادم معلوم ہوتے ہیں، تو اس سے پی ٹی آئی کے اتحاد، ساکھ اور عوامی امیج کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے – کوئی بھی سیاسی جماعت کسی تحریک میں جاتی ہے تو کوئی مرکزی بیانیہ بناتی ہے مگر پی ٹی آئی میٰں تاحال اسکا فقدان ہے. مخلوط یا متضاد پیغامات غیر یقینی صورتحال پیدا کرتے ہیں۔ نچلی سطح کے کارکنان اور عام عوام نہیں جانتے کہ کس کی پیروی کریں یا کس پر بھروسہ کریں۔اگر پی ٹی آئی اس ملک میں سیاست کرنا چاہتی ہے اور جماعت کو ختم نہیں کرنا چاہتی تو اصلاح کی گنجائش تو ہو فعل میں ہوتی ہے پی ٹی آئی کو اب ایک ادارے کے طور پر کام کرنا چاہیے، نہ کہ صرف شخصیت پر مبنی تحریک، ہر بیان کو پارٹی نظم و ضبط اور اتحاد کے ساتھ ہم آہنگ کرنا چاہیے پی ٹی آئی یا عمرانخان کبھی میرا پسندیدہ شخص نہیں رہے خان کو قریب سے دیکھا ہے یہاں تک کہ سیاسی عروج، حکومت میں آنے سے قبل جب سعودی عرب میں ان سے ملاقات ہوئی تو دیگر پروگراموں کے ساتھ ان سے انکی کشمیر پالیسی پوچھی تو انہوں نے تقریبا مذاق اڑانے والے انداز میں جواب دیا، چھوڑیں یار کشمیر کو صرف پاکستان کی بات کریں۔اب جبکہ پی ٹی آئی کو صدر ٹرمپ سے امید ختم ہوچکی ہے انہوں نے اپنی لابنگ کیلئے ہم جنس پرست امریکی سیاست دان کو بھاری معاوضے پر ر کھا وہ کیا کرسکتا ہے ؟؟خلاصہ کچھ یو ں ہے کہ تحریک انصاف کے اندر کی بے پناہ کی گروپ بندی، ملک سے محبت پر مبنی بیانیہ کے فقدان پاکستان کی سیاسی تاریخ سے مٹا دیگا ، دیگر اقتدار کے شوقین اراکین اسمبلی یاحکومت میں جانے کے خواہش مند افراد پی ٹی آئی کی تباہی دیکھ کر دیگر جماعتوں کا رخ کررہے ہیں انکے کانوں میں کسی نے پھونک دیا ہے اگلی باری پی پی پی کی ہے تو وہاں کا رخ کررہے ہیں انکا کوئی نظریہ نہیں ہوتا انکا نظریہ اسمبلیوں کے دروازوں تک محدود ہوتا ہے اسمبلی بیٹھ کر نظریہ بنتا ہے۔ مسلم لیگ جونیجو اگر یاد ہو کسی قاری کو وہاں ایسا ہی ہوا تھا، پنجاب میں مرحوم غلام وائین کی اسمبلی اراکین رات اورصبح کے چند گھنٹو ں میں اپنی وفاداریاں تبدیل کرچکے تھے، کچھ پارٹی چھوڑ جائینگے کچھ کو 9مئی کے مقدمات میں سزا ہوجائیگی اور پی ٹی آئی کا معاملہ یا سیاست ”ٹائیں ٹائین فش“ ہوجائے گا یہ سب اپنی وجہ سے ہوگا جسے کہا جائے کہ you asked for it ، پی ٹی آئی کی تباہی میں موجودہ حکومت کا کوئی ہاتھ نہیں، ہونا تو یہ چاہئے تھا حکومتی نظام اتنا اچھا ہوتا یا عوام مہنگائی سے تنگ نہ ہوتے، امن و امان بہترین ہوتا کہ عوام پی ٹی آئی کو بھول جاتے مگر ایس کچھ نہیں ہوا ، یہ تو خود اس جماعت کی اپنی ہی نااہلی اسکی وجہ ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں