مہنگے پٹرول کے خوفناک اثرات

(تحریر :شاہد محمود )
چند دن پہلے میری ایک خاتون سے ملاقات ہوئی جو بطور لیڈی ہیلتھ وزیٹر حکومت پنجاب کی نجکاری پالیسی کی وجہ سے فارغ ہوئی تھی۔ اس نے بتایا کہ دوران سرکاری جاب اس کو چالیس ہزار روپے تنخواہ ملتی تھی اور جیسے ہی حکومت نے سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری شروع کی ہے تو اس کے ہسپتال کو ایک ڈاکٹر کے حوالے کردیا گیا جہاں ڈاکٹر نے اسے بیس ہزار روپے تنخواہ کی آفر کی جو کہ اس کی پہلی تنخواہ کا محض پچاس فیصد تھا اور ہسپتال آنے اور جانے میں دس سے پندرہ ہزار روپے کا خرچہ الگ سے ہوگا اور اب پانچ دس ہزار روپے پر بھلا کوئی کیا کام کرے اور بچوں کو چھوڑ کر ایک شخص کی بے کار میں باتیں الگ سے سنے۔ یہ مسئلہ ہرشخص کا ہے اور اکثر پڑھے لکھے نوجوان فارغ پھرتے دکھائی دیتے ہیں اور جب ان سے پوچھا جائے کہ کام کاج کیوں نہیں کرتے ہیں تو وہ مایوسی سے کہتے ہیں کہ جناب بیس پچیس ہزار روپے کی نوکری ملتی ہے اور ٹرانسپورٹ کا خرچ نکال کر پندرہ ہزار روپے بچتے ہیں جن میں سے چائے وغیرہ پی لیں تو دس ہزار کی نوکری میں تو ایک شخص کا کھانا اور پہننے کے کپڑے پورے نہیں ہوتے ہیں تو پھر ایسے کام کا کیا فائیدہ ہے یقین جانئیے یہ دیکھ کر دل خون کے آنسوں روتا ہے کہ ایم فل نوجوان محض بیس پچیس ہزار تنخواہ پر ٹیچر کی نوکری کرنے پر مجبور ہیں اور حکمران ہیں کہ لوگوں کو روزگار تو کیا دینا ہے بلکہ لوگوں کے جینے کے حق کو ہی چھیننے میں مصروف ہیں۔ اس وقت صرف پنجاب میں دو کروڑ سے زیادہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں شادی کی عمر میں کنوارے رہنے پر مجبور ہیں کیونکہ ان نوجوانوں کے لئے یہ ممکن ہی نہیں رہا ہے کہ وہ شادی کرکے اپنی آمدنی میں ایک نئے شخص کا بوجھ اٹھا سکیں جبکہ بچوں کی پرورش تو بڑی دور کی بات ہے اس کی وجہ سے ہمارے خاندانی نظام کو بڑا دھچکا لگا ہے اور طلاقِ کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے کیونکہ ایک گھر میں جہاں پہلے ہی کھانے کے لالے پڑے ہوتے ہیں وہاں ایک نئے خاندان کا وجود بھوک اور مفلسی میں اضافہ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ نوجوانوں میں شادی نہ کرنے کا رحجان بڑھ رہا ہے جو آنے والے دنوں میں ناجائز تعلقات کو پروان چڑھانے کا سبب بن سکتا ہے ۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اب مرد اور عورت دونوں کو کام کرنا پڑے گا جبکہ یہاں کی حالت یہ ہے کہ سسٹم صرف مردوں کو ہی مناسب روزگار دے دے تو بھی غنیمت ہے۔ اس وقت کی جو معاشی حالت ہے اس نے معاشرتی اقدار کو برے طریقے سے تباہ کیا ہے اور بات یہیں تک ٹھہرتی تو شاید کچھ حل نکلتا لیکن پچھلے تین چار سالوں میں ملک کے اندر لگتا ہے ہر چیز ناپید ہو چکی ہے اور تو اور جو لوگ پراپرٹی سے کچھ کماتے تھے وہ اسی لاکھ لوگ بھی بیروزگار ہو چکے ہیں اور جو لوگ اپنا گھر بنانا چاہتے ہیں ان کے لئے صرف پلاٹ کی خریداری پر لگے ٹیکسوں کا بوجھ بھی اٹھانا مشکل ہو گیا ۔ اس وقت ملک میں کوئی کاروبار ڈھنگ سے نہیں چل پارہا ہے اور جہاں کچھ کاروباری رمق باقی بچی ہے تو وہاں حکمران ٹیکس مسلط کرنے میں مصروف ہیں اور کوشش یہی ہے کہ کہیں سے کوئی روشنی کی کرن نہ آسکے کہ کوئی عام شخص سکھ کا سانس لے سکے جیسا کہ واحد آنلائن کاروبار اور فری لانسنگ کا شعبہ کسی حد تک نوجوانوں کو روزگار فراہم کررہا تھا اور اب اس پر بھی ٹیکس مسلط کئے جارہے ہیں ۔ پاکستان میں اس وقت اسی فیصد لوگ ایسے ہیں جن کے لئے روز مرہ کی ضروریات کو پورا کرنا مشکل ہو گیا ہے اور نوے فیصد گاڑی مالکان اب گاڑی چلانے کی حیثیت کھو چکے ہیں جبکہ کرائے کے گھر لے کر شہروں کے اندر رہنا اب مشکل ترین ہو چکا ہے اور لوگوں کی بڑی تعداد شہروں کو چھوڑ رہی ہے اور ان میں سے پڑھے لکھے لوگ ملک سے باہر بھاگ رہے ہیں اور مزدور طبقہ واپس گاؤں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوتا جارہا ہے اور اس خوفناک انسانی شفٹنگ کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب نہ تو لوگوں کو روزگار ہی ملتا ہے اور نہ ہی بزنس کرنے والے افراد کو مناسب اجرت پر کوئی ورکر ملتا ہے اور حالت یہ ہو چکی ہے کہ لوگوں کے لئے فیکٹریوں اور مارکیٹوں میں نوکری کرنے میں کوئی دلچسپی بچی ہے اور نہ ہی کاروباری لوگوں کے پاس کام کرنے والے افراد کی ڈیمانڈ کردہ اجرت دینا ممکن رہا ہے اور اس خطرناک سائکل کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب ملک کے اندر تجارتی اور کاروباری سرگرمیاں بری طرح سے تباہی کا شکار ہیں اور کاروباری طبقہ اپنی بچتوں پر گزارہ کرنے پر مجبور ہے جبکہ جو تھوڑا بہت کاروبار چلتا بھی ہے تو وہاں حکومتی محکمے بھتہ خوری کے بغیر کام نہیں کرنے دیتے ہیں اور یہاں تک کہ اب شہروں میں ٹھیلا لگا کر دو وقت کی روٹی کمانا بھی مشکل بنادیا ہے اور شہری کارپوریشن کا عملہ ان کا سامان اٹھا کر لے جاتا ہے اور انڈسٹری قائم کرنے کے لئے پچاس محکموں کی بدمعاشی سے گزرنا پڑتا ہے۔ کوئی بھی کاروبار شروع کرنے سے پہلے سرکار کے راشی افسران کی جیبیں بھرنا پڑتی ہیں ۔گز شتہ روز پٹرول کی قیمتوں میں ایک بار پھر بڑا اضافہ کیا گیا ہے اور ایک مہینہ میں یہ مسلسل دوسرا اضافہ اور پٹرولیم مصنوعات میں یہ اضافی اس وقت کیا جارہا ہے جب دنیا میں پٹرولیم کی قیمتیں زمین بوس ہو چکی ہیں اور پاکستانی ہیں کہ انھیں مسلسل پٹرول کے عذاب میں مبتلا کیا جارہا ہے اور اب پٹرول کی قیمتیں بڑھنے سے ہر چیز کی قیمت آسمانوں تک پہنچنے لگیں گی اور عام آدمی کی قوت خرید میں مزید کمی واقع ہو جائے گی ۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک میں بیروزگاری کی شرح میں بڑا اضافہ دیکھا گیا ہے اور یہ شرح بیس فیصد سے بھی اوپر چلی گئی ہے۔ بیروزگاری میں مسلسل اضافہ اصل میں غربت کی شرح کو بڑھا رہا ہے اور ملک میں مڈل کلاس تقریباً ختم ہو چکی ہے اور چند امراکے علاؤہ باقی ساری عوام غربت کی لکیر کے آس پاس پہنچ چکی ہے اور یہی حالت رہی تو اس حکومت کے دور میں ملک غریب ترین ممالک کی صف میں شامل ہو جائے گا۔ حکومت نے تو پٹرول اور بجلی کو اپنا روزگار بنالیا ہے لیکن اصل میں پٹرول کی بڑھتی قیمتیں عوام کے روزگار کی بڑی دشمن ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں