پینڈوز اینڈ ڈاگز آر ناٹ الاوڈ ، مصطفےٰ صفدر بیگ کا کالم

جاوید چودھری کے خیالی گھوڑے ، مصطفےٰ صفدر بیگ کا تجزیہ

جاوید چودھری کے خیالی گھوڑے ، مصطفےٰ صفدر بیگ کا تجزیہ
مشہور کالم نگار جاوید چودھری صاحب کا یکم جولائی 2025 کو شایع ہونے والا کالم “حکمت کی واپسی” بظاہر ایک فکری اور ادبی تحریر معلوم ہوتی ہے جس میں گھوڑے کی علامت کو بنیاد بنا کر معاشرتی زوال، فنونِ لطیفہ کے انحطاط اور دہشت گردی جیسے سنگین مسائل کو اجاگر کیا گیا ہے۔ تاہم اگر اس کالم کو تحقیقی، علمی اور تاریخی معیار پر پرکھا جائے تو یہ تحریر کئی بے بنیاد دعووں، افسانوی بیانیوں اور علمی تضادات پر مشتمل ہے۔
مثال کے طور پر کالم کے ابتدا میں تاتاریوں اور چنگیز خان کی عسکری صلاحیتوں کی تعریف کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ مرے ہوئے گھوڑے کا خون دوسرے گھوڑے کو پلا کر سفر جاری رکھتے تھے۔ اس قسم کے دعوے سننے میں چونکا دینے والے ضرور ہوتے ہیں لیکن تاریخ میں ان کا کوئی مستند حوالہ دستیاب نہیں۔ منگولوں کی فوجی مہارت ان کے نظم و ضبط، گھڑ سواری اور تیر اندازی میں ضرور تھی لیکن یہ افسانوی بیان حقیقت پر مبنی نہیں۔
کالم میں دعویٰ کیا گیا کہ “چنگیز خان دنیا کا پہلا جرنیل تھا جس نے اپنے سپاہیوں کو چلتے گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر سونے اور دوڑتے گھوڑے کی پیٹھ سے تیر چلانے کی ٹریننگ دی”، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ مثال کے طور پر مشہور برطانوی ماہر آثار قدیمہ سر بیری ونڈسر اپنی کتاب “اسکیثین” میں بتاتے ہیں کہ گھڑ سواری سے تیر اندازی چنگیز خان سے کئی صدیوں پہلے اسکوتیوں، پارثین اور ہُن قبائل کے ہاں عام تھی۔
کالم میں کہا گیا ہے کہ ” دنیا میں اگر گھوڑا نہ ہوتا تو شاید چنگیز خان بھی نہ ہوتا”، لیکن مشہور محقق جیک ویدر فورڈ کے مطابق کسی بھی دوسری فوج کی طرح گھوڑا منگول فتوحات کا بھی حصہ تھا مگر چنگیز خان کی جنگی حکمت عملی، اتحاد سازی اور اس کی قیادت زیادہ اہم عوامل تھے۔
کالم میں کہا گیا کہ “چنگیز خان کے سپاہی مرے ہوئے گھوڑے کا خون دوسرے گھوڑے کو پلاتے تھے”۔ اس دعوے کا کوئی مستند تاریخی حوالہ نہیں ملتا۔ منگول تاریخ پر اتھارٹی سمجھے جانے والے جرمن محقق پروفیسر پال ریچنیوسکی اپنی کتاب “دی سیکرٹ ہسٹری آف منگولز” میں لکھتے ہیں کہ منگولوں کی خوراک میں دودھ، قیمہ اور گوشت شامل ہوتا تھا لیکن گھوڑوں کا خون پینے پلانے کا دعویٰ افسانوی ہے۔
کالم میں دعویٰ کیا گیا کہ “آج سے اڑھائی ہزار سال قبل ہندوستان میں گھوڑا، افیون، ستون اور پائجامہ نہیں ہوتا تھا، یہ چاروں چیزیں سکندر اعظم نے یہاں متعارف کرائیں”۔ یہ بھی غلط بیانی ہے کیونکہ یہ تمام دعوے تحقیق سے خالی اور سنسنی خیز بیانیے کے سوا کچھ نہیں۔ ان تمام باتوں کا اسکندر اعظم کی ہندوستان آمد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ حقیقت ہمیں یوپندر سنگھ کی تصنیف “اے ہسٹری آف اینشینٹ اینڈ ارلی میڈیول انڈیا” پڑھنے سے معلوم ہوتی ہے، یوپندر سنگھ کے مطابق گھوڑے ہندوستان میں سندھوآریا دور (1500 سے 2000 قبل مسیح) سے موجود تھے، افیون قدیم ہندوستان کی آیورویدک ادویات کا حصہ تھی، ستون بنانے کا فن اشوکا کے دور سے قبل بھی موجود تھا جبکہ پاجامہ کی اصل ایرانی اور وسط ایشیائی ثقافت میں ملتی ہے۔
کالم میں دعوی کیا گیا کہ اسکیندر اعظم کی ہندوستان مہم کے دوران “ہندوستانیوں کے لیے گھوڑا نیا تھا اور یونانیوں کے لیے ہاتھی”، لیکن مشہور محقق روبن لین فاکس کی تصنیف “الیگزنڈر دی گریٹ” کچھ مختلف تصویر پیش کرتی ہے۔ روبن کہتے ہیں کہ یونانی افواج نے افریقی ہاتھیوں کا سامنا کارتیج کی جنگوں میں ہی کرلیا تھا اور یہی تجربہ پورس کے خلاف جنگ میں بھی کام آیا۔
کالم میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ “حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دور میں طائف میں جنگی گھوڑوں کا پہلا اصطبل بنایا”۔ یہ دعویٰ بغیر کسی مستند حوالے کے کیا گیا ہے۔ شبلی نعمانی کی “الفاروق” کے مطابق حضرت عمرؓ کے دور میں گھوڑوں کی افزائش عام تھی مگر طائف میں اصطبل بنانے کا کوئی مستند تاریخی ذکر دستیاب نہیں۔
کالم میں یہ بھی کہا گیا کہ “امریکا میں بھی گھوڑا نہیں ہوتا تھا، یہ جانور ہسپانوی تاجر لے کر امریکا پہنچے”۔ ہاورڈ زِن کی تصنیف “اے پیپلز ہسٹری آف یونائٹڈ اسٹیٹس” کے مطابق یہ صرف امریکہ کے جنوبی حصوں میں ہوا۔ شمالی امریکہ میں گھوڑے بعد میں برطانوی نوآبادیات کے ذریعے پہنچے۔
کالم میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ “عربی ادب کا ایک تہائی حصہ گھوڑوں پر مشتمل ہے، آپ آج بھی عربی ادب کی کوئی پرانی کتاب کھول لیجیے، آپ کو اس کے ہر صفحے پر گھوڑے کا ذکر ملے گا”۔ بلاشبہ عربی شاعری میں گھوڑوں کا ذکر اہم ہے مگر “تہائی” ادب گھوڑوں پر مبنی کہنا ایک غیر سائنسی اور انتہائی مبالغہ آمیز دعویٰ ہے۔ کالم میں عربی زبان کو تقریباً گھوڑے کی مرہون منت قرار دیا گیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ اگر گھوڑے کا تذکرہ نکال دیا جائے تو عربی زبان میں صرف حروفِ تہجی باقی رہ جائیں گے۔ یہ بات لغوی اور ادبی دونوں لحاظ سے مبالغہ آرائی ہے۔ عربی ادب میں بے شک گھوڑے کا ذکر اہم رہا ہے مگر عربی زبان کی وسعت، بلاغت اور لسانی تنوع صرف گھوڑے کے گرد نہیں گھومتا۔
کالم میں دعویٰ کیا گیا کہ عربی “دنیا کی وہ زبان ہے جو کائنات کی کسی چیز کو بے نام نہیں رہنے دیتی”، جبکہ ریڈباؤنڈ یونیورسٹی ہالینڈ میں اسلامک اسٹٰڈیز کے پروفیسر کیس ورسٹی کہتے ہیں کہ دیگر زبانوں کی طرح عربی بھی نامکمل زبان ہے جس میں تبدیلی کے امکانات، اخذ کرنے کی گنجائش اور ابہامات موجود ہیں۔
پھر کالم میں کہا گیا کہ “فرنچ کو سفارت کاری کی زبان سمجھا جاتا ہے کیوںکہ اس میں بھی عربی کی طرح کوئی ابہام نہیں ہوتا” حالانکہ “فرنچ گرائمر ان کانٹیکسٹ” کی مصنفہ مارگریٹ جُب اس کے بالکل برعکس تصور پیش کرتی ہیں۔
کالم میں دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان کا “پہلا قومی ترانہ کسی مسلمان نہیں بلکہ جگن ناتھ آزاد جیسے ہندو شاعر نے لکھا تھا”، حالانکہ آزد کا لکھا ترانہ ابتداء میں محض عبوری طور پر پیش کیا گیا، اسے سرکاری قومی ترانے کا درجہ حاصل نہیں ہوا تھا۔ حوالے کیلئے متحدہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے ریکارڈ میں 1954 کا سرکاری اعلامیہ ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
کالم میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ “مولانا مودودی نے پوری زندگی فیض صاحب کو گالی دی اور نہ ہی فیض صاحب کے منہ سے مودودی صاحب کے خلاف کوئی فقرہ نکلا”، دوسری جانب ضیاء الدین سردار کی کتاب “جناح، اقبال اینڈ پاکستان” بتاتی ہے کہ فیض احمد فیض اور مودودی صاحب فکری لحاظ سے ایک دوسرے کا تضاد تھے اور دونوں نے ایک دوسرے پر تنقید بھی کی تھی۔
کالم میں دعویٰ کیا گیا کہ “ہمارے علماء کرام لاکھ لاکھ لوگوں کو ساتھ لے کر مرزا غلام احمد قادیانی کے گاؤں قادیان چلے جاتے تھے، گاؤں میں پہنچ کر ختم نبوت پر تقریر کرتے تھے اور لوگ قادیانیوں کو گالی تک دیے بغیر واپس لاہور آجاتے تھے”۔ لگتا ہے کہ چودھری صاحب نے عزیز احمد کی “دی 1953 لاہور ری ایٹس” کا مطالعہ نہیں کیا، جس میں بتایا گیا ہے کہ تاریخی طور پر ختم نبوت تحریکوں میں شدید لسانی اور سماجی ردعمل دیکھنے میں آیا خاص کر 1953 کی تحریک میں۔ اور یہ لاکھ لاکھ لوگوں کا ساتھ لے جانے کا دعویٰ تو انتہائی مبالغہ ہے، جس کا کوئی حوالہ موجود نہیں۔
کالم میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ “فنون لطیفہ کو زوال آیا اور یہ زوال اپنے ساتھ طالبانائزیشن، فرقہ واریت اور دہشت گردی کا بھوت لے آیا”۔ دوسری جانب جیمز فاریسٹ کی “انڈراسٹینڈنگ ٹیررزم” کہتی ہے کہ دہشت گردی کے اسباب میں معاشی، سیاسی، علاقائی اور مذہبی عوامل شامل ہوتے ہیں، فنون لطیفہ کا زوال اس کا واحد سبب نہیں۔
کالم میں فاطمہ جناح کو برقعہ پہنانے والا جملہ انتہائی قیاسی جملہ ہے جس کی کوئی معقول بنیاد یا سماجی تناظر موجود نہیں۔ اسے بھی مبالغے کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
انتہائی محتاط انداز میں بھی کہا جاسکتا ہے کہ جاوید چودھری کا یہ کالم اگرچہ اسلوب کے لحاظ سے جاذب نظر ہے مگر تحقیقی، تاریخی اور علمی لحاظ سے کمزور اور متعدد بے بنیاد دعوؤں پر مبنی ہے۔ ہماری ناقص رائے میں صحافت اور کالم نگاری کے میدان میں ایسی تحریریں پڑھنے والوں میں سنسنی اور سطحی کشش تو پیدا کرسکتی ہیں مگر علمی شعور اور فکری گہرائی کا مظاہرہ ہرگز نہیں کرسکتیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں