(تحریر: اعجاز چیمہ )
جیل کی مضبوط چار دیواری کے اندر سے اٹھی آواز نے سیاسی حلقوں میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ پی ٹی آئی کے چار اسیر رہنما سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، ڈاکٹر یاسمین راشد، میاں محمود الرشید اور سرفراز چیمہ نے ایک خط کے ذریعے نہ صرف اپنی پارٹی، بلکہ پورے ملک کو ایک سوال کی گھنٹی سنائی ہے۔ یہ خط جو لاہور کی جیل کی خاموشیوں میں تحریر ہوا ہے، دراصل ایک چیخ ہے جو موجودہ سیاسی بحران کی گہرائیوں سے نکل کر باہر آ رہی ہے۔ پی ٹی آئی راہنماؤں کا موقف سادہ مگر گہرا ہے کہ پاکستان کو لپیٹ میں لینے والے اس سنگین بحران سے نکلنے کا واحد راستہ ’’سیاسی مذاکرات‘‘ ہیں اور یہ مذاکرات ادارہ جاتی اور سیاسی سطح پر فوری طور پر شروع ہونے چاہئیں۔
پشاور میں ہونے والے پی ٹی ائی کے اہم ترین اجلاس سے ملنے والی معلومات کے مطابق یہ خط صرف چار قیدی رہنماؤں کی آواز نہیں، بلکہ پارٹی کے اندر موجود ایک ایسے دھڑے کی خاموش حمایت بھی رکھتا ہے جو وزیراعظم کی مذاکرات کی پیشکش کا مثبت جواب دینا چاہتا تھا۔ یہ وہ رہنما ہیں جو پارٹی کے بانی عمران خان کی سخت لائن سے ہٹ کر بات چیت کے راستے کو ترجیح دیتے ہیں، مگر ان کی آواز کو مسترد کردیا گیا تھا۔ پی ٹی آئی کے موجودہ چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان کا اس خط کی تصدیق کرنا اور یہ کہنا کہ ’’ہم ان کی رائے پر غور کر رہے ہیں‘‘ پارٹی کے اندر موجود خاموش کشمکش کو بے نقاب کرتا ہے۔ کیونکہ خط کے مندرجات کا بانی پی ٹی آئی کے موقف سے ’’بہت مختلف‘‘ ہونا کوئی معمولی تضاد نہیں۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے تو اپنا موقف بالکل واضح کر رکھا ہے کہ موجودہ حکومتی اتحاد سے کوئی بات چیت نہیں ہوگی اور صرف اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات ممکن ہیں۔ ان کے نزدیک یہ حکومت ’’مبینہ انتخابی دھاندلی‘‘ کا نتیجہ ہے اور اسے جائز تسلیم کرنا ممکن نہیں۔
یہاں ایک بنیادی سوال کھڑا ہوتا ہے کہ کیا سیاسی عمل میں مذاکرات کی گنجائش کسی شرط کے تابع ہونی چاہیے؟ کیا مکالمے کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند کر دینا دانشمندی ہے؟ سیاست کو اکثر ’’ظاہری ناممکنات میں سے ممکنات برآمد کرنے کا فن‘‘ کہا جاتا ہے۔ جمہوریت کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ یہ نظام اپنے اندر ایک لچک رکھتا ہے۔ پارلیمانی بحثیں، قانونی ترامیم اور مسلسل بات چیت کے ذریعے وہ راستے تلاش کیے جاتے ہیں جو شدید اختلافات کے باوجود کسی نہ کسی حد تک سب کے لیے قابل قبول ہوں۔ احتجاج جذبات کا اظہار اور دباؤ ڈالنے کا ایک جائز ذریعہ ہو سکتا ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ احتجاج کے بعد بھی آخرکار حل مکالمے کی میز پر ہی نکلتا ہے۔ مستقل احتجاج اور مکالمے کا انکار بحران کو گہرا کرنے اور معاشرے کو مزید تقسیم کرنے کا سبب بنتا ہے۔
آج کا پاکستان کئی محاذوں پر جنگ لڑ رہا ہے۔ بیرونی جارحیت کے خطرات کم نہیں ہوئے، خطے کی صورتحال انتہائی مخدوش ہے اور اندرونی معیشت و سلامتی کے بحران عوام کی زندگیاں اجیرن بنا رہے ہیں۔ ایسے میں اقتدار میں موجود حلقوں سے مکالمے کا دھاگہ بالکل منقطع کر لینا قومی مفاد کے منافی ہے۔ یہ نہ صرف موجودہ بحران کو حل کرنے کے امکانات کو محدود کرتا ہے، بلکہ مستقبل میں مزید گھمبیر مسائل کو جنم دینے کا باعث بن سکتا ہے۔ جیل میں بیٹھے رہنماؤں کی تجاویز جو انہوں نے اپنے خط میں پیش کی ہیں، درحقیقت ایک عملی راستہ دکھاتی ہیں۔ ایک مذاکراتی کمیٹی کا قیام، بانی پی ٹی آٰئی عمران خان تک رسائی کو آسان بنانا تاکہ قیادت کے ساتھ مشاورت بروقت ہو سکے اور وقتاً فوقتاً مذاکراتی عمل کو جاری رکھنا۔ یہ اقدامات مذاکرات کو رسمی یا غیر موثر بنانے کے بجائے اسے حقیقی نتیجہ خیز بنانے کی طرف پہلا قدم ہوسکتے ہیں۔
مذاکرات کا بنیادی اصول یہ ہے کہ یہ سیاسی عمل کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ ان کے لیے پہلے سے شرائط عائد کرنا، جیسا کہ ’’پہلے فلاں شرط پوری ہو، تب بات ہوگی‘‘، درحقیقت مذاکرات کو لامتناہی التوا میں ڈال دینے کے مترادف ہے۔ شرائط اکثر ایسی ہوتی ہیں جو فریق مخالف کے لیے ابتدا ہی میں تسلیم کرنا ممکن نہیں ہوتا، جس سے عمل کا آغاز ہی نہیں ہو پاتا۔ مذاکرات چاہے وہ کسی بھی سطح پر ہوں، اگر خلوص نیت اور حل کی خواہش کے ساتھ کیے جائیں تو وہ نئے راستے کھول سکتے ہیں۔ چھوٹی کامیابیاں اعتماد پیدا کرتی ہیں اور بڑے مسائل پر پیش رفت کی راہ ہموار کرتی ہیں۔ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ پاکستان میں ماضی میں بھی مذاکرات کے متعدد سلسلے شروع ہوئے۔ کچھ جزوی کامیابی بھی ملی، کچھ راستے میں ہی رک گئے اور کچھ مکمل ناکام ہوئے۔ لیکن ناکامی کا مطلب یہ نہیں کہ مذاکرات کا راستہ ہی ترک کردیا جائے۔ تجربہ تو یہی بتاتا ہے کہ ناکام مذاکرات کا واحد حل مزید مذاکرات ہی ہیں۔ نئے طریقوں، نئے شرکاء یا نئے حالات کے تحت مزاکرات ہوتے رہنے چاہئیں۔
جیل میں قید رہنماؤں کی ایک اہم گزارش یہ بھی ہے کہ انہیں اس مذاکراتی عمل میں شامل کیا جائے۔ یہ محض اپنی رہائی کی خواہش نہیں، بلکہ ایک عملی تجویز ہے۔ یہ رہنما پارٹی کے سینئر عہدیدار اور زیرک سیاستدان ہیں، جن کا تجربہ اور سیاسی بصیرت اس عمل کو کوئی سمت دے سکتی ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ ’’مذاکرات میں کسی بھی جانب سے پہل کو نشانہ بنانا دراصل اس عمل کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہوگا‘‘، دراصل ایک اہم تنبیہ ہے۔ مذاکرات کا ماحول تعمیری ہونا چاہیے، تنقید اور الزام تراشی سے پاک۔ اگر ایک فریق بات چیت کی کوشش کرے اور دوسرا فریق اسے کمزوری یا خیانت کا لیبل لگا کر اسے نشانہ بنائے تو پھر کوئی بھی مذاکرات کی میز تک آنے کی ہمت نہیں کرے گا۔ اس رویے سے نہ صرف موجودہ عمل رک جاتا ہے بلکہ مستقبل میں بھی مذاکرات کی فضا زہر آلود ہو جاتی ہے۔
پی ٹی آئی کے ان سینئر رہنماؤں نے پارٹی قیادت کو نہ صرف ایک صائب مشورہ دیا ہے، بلکہ ایک بڑی قومی ذمہ داری کا احساس بھی دلایا ہے۔ تاہم اس نوع کے معاملات میں صرف حزب اختلاف پر ہی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ موجودہ حکومت اور اداروں پر بھی یہ بھاری فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ مکالمے کی راہ ہموار کریں۔ یہ یک طرفہ عمل نہیں ہوسکتا۔ حکومت کو بھی اپنے طرز عمل میں لچک پیدا کرنی ہوگی، سیاسی قیدیوں کے معاملے پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا اور مذاکرات کے لیے سازگار ماحول بنانا ہوگا۔ الزامات کے تبادلے اور ماضی کی کھود پاٹ سے بالاتر ہو کر مستقبل کی تعمیر پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔
ملکی تاریخ کے اس نازک موڑ پر، جب عدم اعتماد کی خلیج گہری ہوتی جا رہی ہے اور معاشی و سماجی تناؤ انتہا کو چھو رہا ہے، لاہور کی جیل سے اٹھنے والی یہ آواز ایک نوٹس ہے۔ یہ صرف چار افراد کی رائے نہیں، بلکہ ملک کے لاکھوں شہریوں کی خاموش خواہش کی ترجمانی بھی ہے جو انتشار، معاشی بدحالی اور عدم استحکام سے تنگ آچکے ہیں۔ یہ تو عقل و خرد کی پکار ہے جو کہتی ہے کہ اپنے گہرے اختلافات کے باوجود ہمیں اس مشترکہ زمین کو بچانے کے لیے ایک دوسرے سے بات کرنی ہوگی جس پر ہم سب اکٹھے رہتے ہیں۔ جیل کی سلاخوں کے پیچھے بیٹھے ہوئے یہ رہنما شاید جسمانی طور پر مقید ہیں لیکن ان کا یہ خط ایک ایسی آزاد خیالی کی عکاسی کرتا ہے جو بحران کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں امید کی ایک کرن دکھاتی ہے۔ کیا ہمارے مقتدر طبقے اس آواز کو سنیں گے؟ یا پھر ہم ایک ایسے خوفناک ماضی کی طرف لوٹ جائیں گے جہاں بات چیت کے تمام دروازے بند ہوچکے تھے اور ملک مزید تقسیم و انتشار کی راہ پر گامزن ہوگیا تھا؟ وقت کا تقاضا ہے کہ پہلا قدم مذاکرات کی میز کی طرف اٹھایا جائے، شرائط کے بجائے حل پر توجہ دی جائے اور قوم کو بتایا جائے کہ اس کے لیڈر اس کی تقدیر پر بات کرنے کے لیے کم از کم ایک دوسرے کے سامنے بیٹھنے کو تیار ہیں۔ ورنہ جیل کی چار دیواری کے اندر سے اٹھنے والی یہ آواز تاریخ کے کٹہرے میں ہم سب کے خلاف ایک ثبوت بن کر رہ جائے گی۔