مولانا خان زیب: شہیدِ امن کی یاد اور انصاف کا مطالبہ

(تحریر: محمد زیب)

باجوڑ کی وادیوں میں ایک بار پھر سوگ کی چادر تنی ہوئی ہے۔ ہمارے درمیان سے ایک ایسی روح کو اٹھا لیا گیا ہے جو ہماری اجتماعی زندگی کا حصہ تھی۔ مولانا خان زیب – ایک عالم، ایک معلم، ایک رہنما – کو ہم سے چھین لیا گیا ہے۔ ان کی زندگی امن اور تعلیم کی روشنی پھیلانے میں گزری، مگر ان کی موت نے ہمیں ایک ایسا سوال دے دیا ہے جس کا جواب ہم سب کو مل کر تلاش کرنا ہوگا: کیا ہم اپنے محسنوں کے قاتلوں کو معاف کر سکتے ہیں؟

مولانا خان زیب کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ وہ اس خطے کے ان گمنام ہیروز میں سے تھے جو دن رات محنت کرتے ہیں تاکہ معاشرے سے جہالت کا اندھیرا دور ہو۔ ان کا قتل نہ صرف ایک فرد کا خاتمہ ہے، بلکہ اس خطے میں امن کے امکانات پر ایک کاری ضرب ہے۔ جب ہم ان کی خالی کرسی کو دیکھتے ہیں، ان کے بے چین شاگردوں کے چہروں پر آنسو دیکھتے ہیں، تو ہمارا ایمان مضبوط ہوتا ہے کہ ان کا خون ہماری اجتماعی بیداری کا سبب بنے گا۔

پہلی سماعت: انصاف کی طرف پہلا قدم

پہلی سماعت میں جو کچھ ہوا، وہ ہمارے لیے امید کی ایک کرن ہے۔ قانون کے شکنجے میں قاتلوں کو دیکھ کر ہمیں یقین ہوا کہ انصاف کا چکر شاید دیر سے ہی سہی، لیکن رکتا نہیں۔ مگر ہم جانتے ہیں کہ یہ صرف آغاز ہے۔ ہماری عدالتی نظام سے اپیل ہے کہ اس مقدمے کو کسی بھی طرح کے تاخیر یا رکاوٹ کے بغیر نمٹایا جائے۔ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ جب تک انصاف مکمل نہیں ہوتا، تب تک معاشرے کے زخم بھرنا شروع نہیں ہوتے۔

ہماری اجتماعی ذمہ داری

مولانا خان زیب کا قتل ہمارے لیے ایک امتحان ہے۔ کیا ہم اپنے محسنوں کو بھول جائیں گے؟ کیا ہم ان کے خوابوں کو اپنے دلوں میں زندہ رکھیں گے؟ ان کے شاگردوں کا فرض ہے کہ وہ ان کے مشن کو آگے بڑھائیں۔ ہماری نوجوان نسل کا فرض ہے کہ وہ قلم اور کتاب کے ذریعے اسی راستے پر چلیں جس پر مولانا انہیں لے جانا چاہتے تھے۔

ان کے خوابوں کو زندہ رکھیں

مولانا خان زیب کا سب سے بڑا خواب تھا ایک ایسا پختونخوا جہاں علم کی روشنی ہر گھر تک پہنچے۔ آج ہم سب کو مل کر اس خواب کو پورا کرنا ہے۔ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ خان زیب صاحب کے نام پر ایک تعلیمی ادارہ قائم کیا جائے، تاکہ ان کی کوششیں زندہ رہیں۔ ہم اپنے تمام پختون بھائیوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے پر توجہ دیں، کیونکہ یہی وہ ہتھیار ہے جو ہمیں تاریکی سے نکال سکتا ہے۔

مولانا خان زیب آج ہمارے درمیان نہیں ہیں، لیکن ان کی روح ہماری رہنمائی کر رہی ہے۔ ان کا خون ہمارے ضمیر کو جگا رہا ہے۔ ہم ان سے وعدہ کرتے ہیں کہ ہم انصاف کے لیے ڈٹے رہیں گے۔ ہم امن کے لیے کام کرتے رہیں گے۔ ہم ان کے مشن کو زندہ رکھیں گے۔

“خان زیب صاحب! آپ کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی۔ ہم آپ کے خوابوں کو سچا کر کے دکھائیں گے۔”

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں