اسلام آباد۔پی ٹی آئی اس بار مرکزی احتجاج کے بجائے مقامی سطح پر مظاہروں کی حکمت عملی اپنائے گی تاکہ کارکنوں کی گرفتاریاں اور ممکنہ ریاستی کریک ڈاؤن سے بچا جا سکے۔ مظاہروں کا آغاز جمعہ کی نماز کے بعد مقامی مساجد سے کیا جائے گا اور ہر ضلع میں الگ الگ احتجاجی پروگرام ترتیب دیے جائیں گے۔
پارٹی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ حالیہ اجلاس، جس کی صدارت خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے ایک سینیٹر کے فارم ہاؤس پر کی، اس حکمت عملی کا اہم حصہ تھا۔ تاہم، چند اہم رہنماؤں نے اس اجلاس میں شمولیت سے متعلق لاعلمی کا اظہار کیا اور خود کو اس منصوبہ بندی سے الگ قرار دیا۔
پی ٹی آئی کی جانب سے حکومت کے مبینہ 90 دن کے الٹی میٹم پر بھی تنقید کی گئی ہے، جسے پارٹی نے اپنی احتجاجی حکمت عملی سے غیر متعلقہ قرار دیا۔ پارٹی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ محض ایک حربہ ہے تاکہ خیبرپختونخوا حکومت کو غیر مستحکم کیا جا سکے۔
ذرائع کے مطابق، علی امین گنڈا پور کو اپنی قیادت پر پارٹی اور عوامی سطح پر سخت دباؤ کا سامنا ہے، اور احتجاجی کال کا مقصد موجودہ سیاسی دباؤ سے وقتی ریلیف حاصل کرنا اور کارکنوں کو دوبارہ منظم کرنا ہے۔
پی ٹی آئی کی حکمت عملی میں اس بات کو مدنظر رکھا گیا ہے کہ ماضی میں اسلام آباد میں احتجاجی مظاہروں کے بعد شدید کریک ڈاؤن کا سامنا کرنا پڑا، لہٰذا اب کے بار زیادہ توجہ خیبرپختونخوا میں مظاہروں پر دی جائے گی جہاں صوبائی حکومت کی حمایت حاصل ہے۔
پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر عمران خان کے بچے مظاہروں میں شریک ہوتے ہیں تو یہ کارکنوں کو مزید متحرک کرنے اور عوامی ہمدردی حاصل کرنے کا سبب بن سکتا ہے، تاہم ان کی سیکیورٹی پر تحفظات بھی موجود ہیں۔
ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ پارٹی اندرونی طور پر اختلافات اور قیادت کی تبدیلی جیسے چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے، اور یہ احتجاجی تحریک ان مسائل سے وقتی طور پر توجہ ہٹانے کی ایک کوشش بھی ہو سکتی ہے۔











